نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کے حکم کو صرف "سیرابی کے طریقے" سے منسلک کیا ہے، اور اس کے بعد ہونے والے امور جیسے کٹائی یا بیج بونے کے اخراجات کو اس حکم میں شامل نہیں کیا۔
بیج بونا، زمین کو ہموار کرنا، فصل کاٹنا — یہ سب الگ امور ہیں، جن کا تعلق زکوٰۃ کے حکم سے نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت پوری امت کے لیے ہے، نہ کہ صرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے کے لوگوں لیے، بلکہ آپ کی شریعت قیامت تک آنے والوں کے لیے بھی ہے۔
اور اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ نئی نئی مشینیں آئیں گی، اور پانی دینے، کٹائی، بیج بونے وغیرہ میں ایندھن اور دیگر وسائل کی ضرورت پیش آئے گی۔
اس لیے سائل نے جو باتیں ذکر کی ہیں، کہ بارش سے سیراب ہونے کے باوجود کھیتی پر اخراجات آتے ہیں — تو یہ سب زکوٰۃ کے وجوب پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔ ایسی کھیتی جسے بارش، چشموں یا بغیر محنت کے قدرتی ذرائع سے پانی ملا ہو، اس میں عشر واجب ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو کھیتی آسمانی پانی، چشموں یا بغیر محنت کے سیراب ہو، اس میں عشر ہے، اور جو محنت سے سیراب کی جائے، اس میں نصف عشر) صحیح بخاری، اس حدیث کے دیگر شواہد بھی ہیں۔
تو یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ بیج بونے سے پہلے کی مشقت دیکھی، نہ ہی فصل تیار ہونے کے بعد کے اخراجات۔
بلکہ صرف "سیرابی کے طریقہ" پر حکم کو منسلک رکھا، لہٰذا:
- جو کھیتی بارش، نہر، چشمے وغیرہ سے سیراب ہو، اس میں پورا عشر ہے (یعنی ہر 1000 میں سے 100)
- اور جو کھیتی مشینوں، اونٹوں، بیلوں یا اسپرے سسٹم سے سیراب ہو، تو اس میں نصف عشر ہے (یعنی ہر 1000 میں سے 50)
کیونکہ اس سیرابی کے طریقے میں خرچ اور محنت آتی ہے۔
اللہ تعالی عمل کی توفیق دینے والا ہے۔