الحمد للہ.
جب كوئى شخص اپنى بيوى كو كہے: تم نے ايسے كيا تو تمہيں طلاق، تو يہ شرط پر معلق طلاق ہوگى، اگر اس نے وہ كام كيا تو جمہور علماء كے ہاں اسے طلاق واقع ہو جائيگى.
اور بعض علماء اس ميں تفصيل بيان كرتے ہيں:
اگر خاوند نے طلاق كا ارادہ كيا تو شرط پورى ہونے كى صورت ميں بالفعل طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر اس نے بيوى كو اس فعل سے منع كرنے كا ارادہ كيا تھا، اور طلاق نہيں چاہتا تھا تو يہ قسم كے حكم ميں ہوگى.
چنانچہ قسم ٹوٹنے كى صورت ميں قسم كا كفارہ لازم آئيگا اور طلاق واقع نہيں ہوگى، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور بہت سارے علماء كا اختيار يہى ہے.
اس سے يہ واضح ہوا كہ اگر آپ كى بيوى نے وہ كام نہيں كيا تو كچھ نہيں ہوا، نہ تو طلاق واقع ہوئى اور نہ ہى كفارہ لازم ہوا، ليكن اگر اس نے وہ كام كر ليا تو پھر سابقہ اختلاف جارى ہوگا.
مزيد آپ سوال نمبر ( 82400 ) اور ( 105438 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
آپ كو چاہيے كہ حدود اللہ كا پاس كريں، اور طلاق كے الفاظ جھگڑے اور غصہ ميں استعمال كرنے سے گريز كريں، كيونكہ طلاق تو خاوند اور بيوى كے تعلقات ختم كرنے كے ليے مشروع كى گئى ہے، اس ليے خاوند كو يہ اقدام پورى بصيرت كے ساتھ اٹھانا چاہيے كہ وہ يہ ازدواجى تعلقات ختم كرتے وقت پورى بصيرت سے كام لے.
واللہ اعلم .