الحمد للہ.
عقد نكاح كے ليے كوئى دن متعين نہيں كيا گيا، بلكہ جس دن بھى آدمى نكاح كرنا چاہے كر سكتا ہے، چاہے جمعہ كا دن ہو يا كوئى اور دن، جب ايك آدمى نے اپنى ضرورت يا كسى اور سبب كى بنا پر جمعہ كا دن عقد نكاح كے ليے مقرر كيا ہے تو فى ذاتہ اس ميں كوئى بدعت نہيں.
آپ كے سوال سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ آپ نے اپنے نكاح كے ليے جمعہ كا دن مقرر كيا اور پھر اس كے بارہ ميں اختلاف سنا تو اس بنا پر آپ كے ليے اسے تبديل كرنا ضرورى نہيں اور ان شاء اللہ يہ بدعت بھى نہيں ہے.
رہا يہ كہ عمدا جمعہ كے روز نكاح كرنا اور اسے مستحب سمجھنے كے بارہ ميں مذاہب اربعہ كے فقھاء كرام نے اسے مستحب بيان كيا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جمعہ كے روز نكاح كرنا مستحب ہے "انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 64 ).
اور نفراوى مالكى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جمعہ كے روز منگنى اور عقد نكاح كرنا مستحب ہے " انتہى
ديكھيں: الفواكہ الدوانى ( 2 / 11 ).
مزيد آپ شيخ زكريا انصارى شافعى كى اسنى المطالب ( 3 / 108 ) اور ابن الھمام حنفى كى فتح القدير ( 3 / 189 ) كا مطالعہ كريں.
فقھاء كرام نے سلف رحمہم اللہ كے عمل سے اس پر استدلال كيا ہے جن ميں ضمرۃ بن حبيب اور راشد بن سعد اور حبيب بن عتبۃ رحمہم اللہ شامل ہيں، اور اس ليے بھى كہ جمعہ كا دن مبارك ہے اس ليے جب مبارك دن شادى ہو تو اميد ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى شادى ميں بركت عطا فرمائے، اور اس ليے بھى كہ يہ دن شرف و مقام والا اور عيد كہلاتا ہے.
يہاں ہميں فقھاء كرام كى عبارت " مستحب ہے " كو مد نظر ركھنا چاہيے كہ انہوں نے مستحب كے لفظ بولے ہيں نا كہ مسنون كے، كيونكہ فقھاء كو علم تھا كہ جمعہ كے دن عقد نكاح پر ابھارنا اور اس كى ترغيب دلانا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں.
بلكہ يہ تو بعض سلف اور متقدمين فقھاء سے وارد ہے جو كہ ان كا اجتھاد ہے كہ جمعہ كے دن جمعہ كى بركت كى بنا پر نكاح ميں بركت حاصل كرنے كے ليے اس دن نكاح كيا جائے كہ ہو سكتا ہے اللہ سبحانہ و تعالى دعاء قبول فرمائے، كيونكہ جمعہ كےدن ايك وقت ايسا ہے جس ميں دعا قبول ہوتى ہے.
اكثر طور پر فقھاء كرام مستحب كا لفظ وہاں بولتے ہيں خاص كر جس كے ليے كوئى دليل نہ ملتى ہو، اس ليے فقھاء كے ہاں مستحب سنت سے زيادہ وسيع ہے، كيونكہ سنت كے ليے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مرفوع صحيح حديث كا ثبوت ہونا ضرورى ہے.
اس ليے بعض اہل علم نے متنبہ كيا ہے كہ اس مستحب كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ سنت نہ سمجھا جائے، بلكہ اس كے مستحب ہونےميں بھى اختلاف ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كے متعلق مجھے علم نہيں كہ يہ سنت ہے، فقھاء نے اس كى علت بيان كي ہے كہ جمعہ كے دن آخرى حصہ ميں دعا كى قبوليت كا وقت ہے، اس ليے اميد كى جاتى ہے كہ شادى كے وقت يہ دعا ہو اور اس سے بركت حاصل كى جا سكے كہ اسے مباركباد ميں " بارك اللہ لك و عليك " كہا جائے.
ليكن يہاں يہ كہا جائيگا كہ كيا نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ طريقہ تھا كہ آپ اس كے ليے يہ وقت تلاش كرتے ؟
جب يہ ثابت ہو جائے تو مستحب كا قول ظاہر ہے، ليكن اگر ثابت نہ ہو تو پھر اسے طريقہ نہيں بنانا چاہيے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كسى بھى وقت شادى كيا كرتے اور اس ميں ثابت نہيں كہ آپ نے كوئى معين وقت اختيار كيا ہو.
ہاں يہ ہے كہ اگر خود بخود نكاح اس وقت ميں ہو جائے تو ہم كہيں گے ان شاء يہ وقت اچھا ہے كہ اس موقع اور مناسبت ميں نكاح ہوا كہ نكاح كے ليے قبوليت كا وقت ملا ليكن اگر عمدا اور قصدا يہ وقت تلاش كر كے نكاح كيا جائے تو اس كے ليے كوئى دليل چاہيے.
لہذا صحيح يہى ہے كہ جب بھى عقد نكاح كا وقت ميسر ہو يا جگہ ميسر ہو چاہے مسجد ہو يا گھر يا بازار يا ہوائى جہاز وغيرہ اور اسى طرح كسى بھى وقت نكاح كيا جا سكتا ہے انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 33 ).
خلاصہ:
جب آپ نے پہلے سے ہى جمعہ كا دن نكاح كے ليے مقرر كر ركھا ہے تو پھر اس تعيين ميں كوئى حرج نہيں، اور آپ كے ليے اسے تبديل كرنا لازم نہيں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى آپ كو اس دن كى فضيلت اور بركت نصيب كر دے.
واللہ اعلم .