الحمد للہ.
کسی دکان پر کام کرنے والے شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی چیزیں بھی وہاں فروخت کرے اور نفع خود رکھ لے؛ کیونکہ یہ امانت میں خیانت ہے، اور دکاندار سے دھوکا دہی میں شامل ہوتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو توبہ کی توفیق دے اور آپ نے پوچھا کہ اب آپ کیا کریں؟
اس لیے آپ پر لازم ہے کہ ان کارڈوں کا نفع دکاندار کو دیں، اور نفع کی مقدار جاننے کے لیے محتاط ترین ایسا تخمینہ لگائیں کہ آپ کو لگے کہ آپ نے اپنے ذمہ تمام رقم دکاندار کو ادا کر دی ہے۔
آپ نے بتلایا کہ 150 پاؤنڈ دکان میں چھوڑے تھے، اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے نفع کی مد میں اسے چھوڑے تھے تو یہ رقم آپ کے ذمہ مجموعی رقم میں سے منہا ہو جائے گی۔
اور جو رقم آپ نے دکاندار کی طرف سے صدقے کی نیت سے ادا کی ہے یہ رقم آپ مجموعی رقم سے منہا نہیں کر سکتے؛ کیونکہ آپ پر یہ لازم تھا کہ یہ رقم دکاندار کو واپس کریں نا کہ ان کی طرف سے صدقہ کریں۔ دکاندار کی طرف سے صدقہ کرنا اس وقت جائز ہو گا جب آپ کے لیے دکاندار تک پہنچنا ممکن نہ ہو؛ لیکن یہاں تو آپ اس کی جگہ بھی جانتے ہیں، تو اس لیے آپ دکاندار کی طرف سے اس رقم کو صدقہ نہیں کر سکتے۔
اور یہ بھی سمجھ لیں کہ وہ صدقہ آپ کی طرف سے ان شاء اللہ ہو گیا، ہماری دعا ہے کہ آپ کو اپنی نیکیوں کے پلڑے میں یہ صدقہ ملے ۔
اب آپ اپنے ذمہ دکاندار کے بقیہ نفع کا تخمینہ لگائیں اور اپنی توبہ کو مکمل کرنے کے لیے یہ رقم دکاندار تک پہنچائیں ان شاء اللہ پھر آپ کی توبہ بارگاہ الہی میں قبول بھی ہو گی۔
البتہ پاؤنڈ کی قیمت میں آنے والے فرق سے کچھ نہیں ہو گا، آپ بغیر کسی کمی بیشی کے مطلوبہ رقم دکاندار کو پہنچائیں گے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی توبہ قبول کرے۔
واللہ اعلم