الحمد للہ.
اول:
جس كسى شخص نے بھى طلاق دينے كے مقصد سے طلاق كى قسم اٹھائى تو قسم ٹوٹنے كى صورت ميں طلاق واقع ہو جائيگى، اس پر سب علماء كا اتفاق ہے.
اور اگر غصہ كى حالت ميں ہو تو اس ميں تفصيل پائى جاتى ہے، اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 96194 ) اور ( 22034 ) كے جوابات ميں ہوا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور اگر طلاق كے مقصد كے بغير قسم اٹھائى جائے، اور اس سے اپنے آپ يا كسى دوسرے كو كسى كام كى ترغيب دلانا يا اپنے آپ يا كسى دوسرے كو روكنا مقصود ہو، تو يہ قسم كے حكم ميں آتا ہے، قسم ٹوٹنے كى صورت ميں قسم كا كفارہ ادا كرنا ہوگا، اور اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى.
دوم:
ايك ہى مجلس ميں اور الفاظ ميں تين طلاق بولنے سے ايك ہى طلاق واقع ہوگى، راجح قول يہى ہے، اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 96194 ) ميں ديكھ سكتے ہيں.
اس بنا پر اگر آپ نے اپنى قسم سے طلاق مراد لى تھى اور آپ كا غصہ بھى اس قسم ميں شامل نہيں ہوتا جو طلاق واقع ہونے ميں مانع ہو تو آپ دونوں كا ايك ہى دوكان ميں رہنے سے ايك طلاق واقع ہو جائيگى.
ليكن اگر وہ دوكان سے چلا گيا، يا پھر آپ چلے گئے تو كچھ لازم نہيں آئيگا.
انسان كو طلاق كے الفاظ ايسى جگہ استعمال كرنے سے گريز كرنا چاہيے جہاں وہ استعمال نہيں كيے جاتے، اور اسے اللہ كى حدود كا پاس كرنا چاہيے، تا كہ اپنے گھر كى بھى حفاظت ہو اور خاندان كى بھى.
واللہ اعلم .