بدھ 17 جمادی ثانیہ 1446 - 18 دسمبر 2024
اردو

مرد اگر اپنے گھر میں داخل ہونا چاہے تو کیا وہ بھی اجازت لے گا؟

سوال

کیا کوئی شخص اپنے ہی گھر میں اجازت کے بغیر داخل ہو سکتا ہے؟ اس کی دلیل قرآن و سنت کی روشنی میں دیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
 ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنے گھروں کے علاوہ کسی گھر میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک تم اجازت نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام کہو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔[النور: 27]

تو یہاں اللہ تعالی نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ اپنے گھروں کے علاوہ دیگر کسی گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لے لیں، اور اجازت لینے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے اجازت لے اور پھر سلام کرے۔

جیسے کہ ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ ہمیں بنو عامر کے ایک شخص نے بتلایا کہ اس نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس داخل ہونے کی اجازت لینے کے لیے کہا: "کیا میں آ جاؤں؟" تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے خادم سے کہا: اس کے پاس جاؤ اور اسے اجازت لینے کا طریقہ سکھاؤ، اسے کہو کہ: تم اجازت لینے کے لیے کہو: السلام علیکم کیا میں داخل ہو جاؤں؟ تو اس شخص نے کہا: السلام علیکم کیا میں داخل ہو جاؤں؟ تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں داخل ہونے کی اجازت دی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چلا گیا۔
اس حدیث کو ابو دواد رحمہ اللہ (5177)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

علامہ عظیم آبادی رحمہ اللہ عون المعبود شرح سنن ابو داود میں کہتے ہیں:
"اس حدیث میں واضح ہے کہ اجازت لینے کا مسنون طریقہ سلام اور اجازت دونوں پر مشتمل ہے، اور اجازت سے پہلے سلام کہے۔" ختم شد

دوم:
مذکورہ بالا آیت کریمہ کا مفہومِ مخالف یہ ہے کہ مرد اپنے گھر میں بغیر اجازت کے بھی داخل ہو سکتا ہے۔

جیسے کہ ابن جزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ آیت کریمہ اجنبی شخص کو کسی گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینے کا حکم دے رہی ہے، چنانچہ اس میں ہر شخص کے قریبی رشتہ داروں اور دیگر لوگوں کے گھر بھی شامل ہوں گے۔" ختم شد
"التسہیل لعلوم التنزيل" (ص 1230)

ذاتی گھر میں مرد کے لیے بغیر اجازت داخل ہونے کا معاملہ تب ہے جب گھر میں بیوی اور لونڈی کے علاوہ کوئی بھی نہ ہو؛ کیونکہ خاوند اور لونڈی کا آقا اس کے مکمل جسم کو دیکھ سکتا ہے چاہے بالکل بے لباس ہو، کسی گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا نظر کی حفاظت کے لیے پیشگی اقدام ہے مبادا نظروں کے سامنے کوئی غیر مناسب منظر نہ آ جائے، یا کسی ایسے ستر پر نظر پڑ جائے جسے دیکھنا جائز نہ ہو۔

چنانچہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (داخل ہونے سے پہلے اجازت نظر کی وجہ سے ہی لازم قرار دی گئی ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6241) اور مسلم : (2156) نے روایت کیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس سے یہ بھی اخذ کیا گیا ہے کہ مرد جب اپنے گھر میں داخل ہو رہا ہو تو اسے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ جس وجہ سے اجازت لینا لازم قرار دیا گیا ہے وہی یہاں پر معدوم ہے؛ تاہم اگر اس چیز کا احتمال ہو کہ کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ جس کی وجہ سے اجازت لینا ضروری ہو گیا ہے تو پھر اجازت لینا لازم ہو گا۔" ختم شد

سوم:

مکمل ادب اور حسن معاشرت میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان اپنے گھر میں بیوی کے پاس جانے سے پہلے بھی اجازت طلب کر لے، تا کہ بیوی کو پراگندہ حالت اور کام کاج کے کپڑوں میں نہ دیکھے کہ ایسی حالت میں عام طور پر انسان اپنی اہلیہ کو دیکھنا پسند نہیں کرتا، چنانچہ متعدد سلف صالحین نے اس چیز کو اچھا قرار دیا ہے کہ اگر اہلیہ گھر میں ہو تو خاوند اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے بھی اجازت لے۔

ابن جریج رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا: کیا خاوند اپنی اہلیہ کے پاس جانے سے پہلے اجازت لے؟ تو انہوں نے کہا: کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس کا مطلب یہ ہے کہ خاوند کے لیے گھر میں داخل ہونے کی اجازت لینا واجب نہیں ہے، تاہم بہتر یہ ہے کہ بیوی کو اپنے آنے کا بتلا دے، اچانک سے بیوی کے پاس نہ جا دھمکے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ بیوی کسی ایسی حالت میں ہو جسے وہ دیکھنا پسند نہ کرے۔
چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب کام سے گھر واپس آتے تو کھنکارتے اور گلا صاف کرنے کی آواز نکالتے تھے؛ تا کہ ہمیں کسی ایسی حالت میں نہ دیکھیں جو انہیں پسند نہیں ہے۔" اس اثر کی سند صحیح ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب کوئی مرد اپنے گھر جائے تو بہتر ہے کہ کھنکار لے یا اپنے جوتے چٹخائے ۔"

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رات کے وقت گھر جانے سے منع فرمایا۔" ختم شد
"تفسیر ابن کثیر" (6 / 39-40)

چہارم:
اگر گھر میں بیوی کے علاوہ کوئی اور محرم رشتے دار مثلاً: والدہ، بیٹی یا بہن وغیرہ ہو تو صحیح موقف یہ ہے کہ ان کے پاس جانے سے پہلے اجازت لینا واجب ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس سے یہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا شرعی عمل ہے، حتی محرم رشتہ داروں کے لیے بھی تا کہ ان کے کسی ستر پر نظر نہ پڑے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے الادب المفرد [اسے البانیؒ نے 812 میں صحیح کہا ہے۔]میں بیان کیا ہے کہ : نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما کا کوئی بیٹا بالغ ہو جاتا تو اسے اجازت کے بغیر اندر نہیں آنے دیتے تھے۔ اسی طرح امام بخاریؒ نے علقمہ کی سند [اسے البانیؒ نے 813 میں صحیح کہا ہے۔]سے بیان کیا کہ: ایک شخص ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: کیا میں اپنی والدہ کے پاس جاتے ہوئے اجازت لوں؟ تو انہوں نے کہا: تم ہر حالت میں اپنی والدہ کو دیکھنا پسند نہیں کرو گے؟!۔ اسی طرح مسلم بن نُذیر کی سند [اسے البانیؒ نے 814 میں حسن کہا ہے۔] سے بیان کیا ہے کہ: ایک شخص نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا میں اپنی والدہ کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لوں؟ تو انہوں نے کہا: اگر اجازت نہیں لو گے تو تمہاری نظر ناگوار منظر پر پڑ سکتی ہے۔ اور موسی بن طلحہ کی سند [اسے البانیؒ نے 815 میں صحیح کہا ہے۔] بیان کیا کہ وہ کہتے ہیں: میں اپنے والد کے ساتھ اپنی والدہ کے کمرے میں داخل اس طرح ہوا کہ والد صاحب کے پیچھے پیچھے میں بھی اندر چلا گیا، والد صاحب نے مجھے سینے پر دھکا دے کر کہا: بغیر اجازت کمرے میں داخل ہو تے ہو؟!۔ اسی طرح عطا کہتے ہیں: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا اپنی ہمشیرہ کے پاس جانے سے پہلے اجازت لوں؟ ابن عباس نے کہا: بالکل اجازت لو۔ میں نے کہا: وہ میری گود میں پلی بڑھی ہے! ابن عباس نے کہا: کیا آپ انہیں برہنہ دیکھنا پسند کرتے ہیں؟! ان تمام آثار کی اسناد صحیح ہیں۔" ختم شد

اسی طرح الشیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بالکل واضح ترین بات کہ جس سے رو گردانی قطعا مناسب نہیں کہ مرد کو اپنی والدہ، بالغ بہن، بیٹوں اور بیٹیوں کے کمروں میں جانے سے پہلے اجازت لے؛ کیونکہ اگر اجازت کے بغیر مذکورہ لوگوں کے کمروں میں جائے گا تو عین ممکن ہے کہ اس کی نظر ان کے ستر پر پڑ جائے، اور ان کے ستر پر نظر ڈالنا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔۔۔"

علامہ شنقیطی رحمہ اللہ نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے پہلے ذکر شدہ اقتباس کو نقل کر کے کہا:
"صحابہ کرام سے نقل کیے جانے والے یہ آثار اسی بات کی تائید کرتے ہیں جو ہم نے کہی ہے، پھر صحیح حدیث (داخل ہونے سے پہلے اجازت نظر کی وجہ سے ہی لازم قرار دی گئی ہے۔) سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے۔ لہذا جن لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں سے کسی کے ستر پر نظر ڈالنا جائز نہیں ہے۔۔۔" اس کے بعد انہوں نے امام ابن کثیر رحمہ اللہ سے مزید چیزیں بیان کی جن میں سے کچھ کا تذکرہ ہم اوپر کر آئے ہیں۔
دیکھیں: " أضواء البيان " (5/500-502)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب