جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

اگر منگنى ميں ايجاب و قبول ہو تو نكاح ہو جائيگا

147796

تاریخ اشاعت : 08-03-2012

مشاہدات : 7347

سوال

برائے مہربانى مجھے يہ فتوى ديں كہ كچھ لوگ كہتے ہيں كہ منگنى اور لڑكے لڑكى والوں كا اس عورت كے مہر پر متفق ہو جانا جس سے شادى كرنى ہو مثلا ايك لاكھ ريال پر اتفاق ہو جائے تو اس سے مرد كے ليے وہ عورت حلال ہو جاتى ہے، كيونكہ نكاح پڑھنا تو سنت ہے، يہاں ايجاب و قبول واجب يعنى آدمى كا عورت سے نكاح قبول كرنا واجب ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

منگنى اور عقد نكاح ميں فرق ہے: منگنى يہ ہوتى ہے كہ عورت سے نكاح كى رغبت ظاہر كرنے كو خطبہ يا منگنى كہا جاتا ہے، غالب طور پر اس ميں عورت كے ولى كى جانب سے ايجاب نہيں ہوتا كيونكہ وہ مہلت ليتا اور جس كا رشتہ طلب كيا گيا ہے اس لڑكى رائے معلوم كرتا ہے، اور بعض اوقات عورت كا ولى شادى كا وعدہ كرليتا ہے.

ليكن عقد نكاح كے كچھ اركان اور شروط ہيں: اركان ميں ايجاب و قبول شامل ہے، عورت كے ولى يا اس كے وكيل كى جانب سے ايجاب اور خاوند يا اس كے وكيل كى جانب سے قبول ہوتا ہے.

لہذا اگر باپ ولى ہو تو وہ يہ كہےگا كہ ميں نے اپنى فلاں بيٹى كا تيرے ساتھ نكاح كيا، اور خاوند كہےگا ميں نے فلاں عورت سے شادى قبول كى.

كشاف القناع ميں درج ہے:

" ايجاب و قبول كے بغير نكاح منعقد نہيں ہوتا، ايجاب عورت كے ولى يا اس كے قائم مقام كى جانب سے صادر الفاظ كو كہا جاتا ہے "انتہى بتصرف

ديكھيں: كشاف القناع ( 5/37 ).

اور بعض فقھاء كرام مثلا حنابلہ نے شرط لگائى ہے كہ قبول پر ايجاب مقدم ہے يعنى پہلے عورت كے ولى كى جانب سے ايجاب ہوگا اور پھر خاوند قبول كريگا "

ديكھيں: المغنى ( 7 / 61 ).

اسى طرح عقد نكاح صحيح ہونے كے ليے دو عادل مسلمان افراد كى گواہى بھى ضرورى ہے.

دوم:

كچھ نكاح تو بغير منگنى كے ہى ہو جاتے ہيں، اور عورت كى رضامندى سے دو گواہوں كى موجودگى ميں ايجاب و قبول ہو تو اس طرح يہ نكاح ہو جائيگا، پہلے زمانے ميں ايسا ہوا كرتا تھا بلكہ اس وقت بھى ہوتا ہے.

يہ نہيں كہا جائيگا كہ نكاح سنت ہے اور صرف ايجاب و قبول واجب ہے، بلكہ ايجاب و قبول ہى عقد نكاح ہے اور يہ كلام سے ہى ہو جاتا ہے اس كے ليے لكھنا اور رجسٹر كرنا شرط نہيں، بلكہ حقوق كى توثيق كے ليے نكاح رجسٹر كرايا جاتا ہے تا كہ حقوق تلف نہ ہوں.

اسى طرح يہ بھى شرط نہيں كہ نكاح كرنے والے نكاح رجسٹرار ہونا چاہيے، بلكہ عورت كے ولى اور خاوند كے درميان ايجاب و قبول ہو تو نكاح ہو جائيگا.

سوم:

اور اگر منگنى ميں ايجاب و قبول ہو جائے اور وہ بعد ميں عقد نكاح پر متفق ہوں تو عقد نكاح اس وقت ہو گا جب وہ نكاح كريں گے؛ كيونكہ يہ صراحت ہے كہ منگنى ميں جو ہوا ہے وہ عقد نكاح نہيں.

اور اگر منگنى ميں ايجاب و قبول ہو اور عقد نكاح كا بعد ميں وعدہ نہ كيا گيا ہو اور نہ ہى انہوں نے اس ذكر تك كيا ہو تو يہاں ان كے ہاں عادت اور رواج كےمطابق عمل كيا جائيگا، كہ اگر ان كے ہاں عادت اور رواج ہو كہ اسے عقد نكاح كے ليے وعدہ شمار كيا جاتا ہو اور عقد نكاح نہيں تو پھر اس سے عقد نكاح نہيں ہوگا.

ليكن اگر ان كے ہاں عادت ہو كہ يہى عقد نكاح شمار ہوتا ہے تو پھر اسے عقد نكاح تسليم كيا جائيگا.

شيخ ابن عليش مالكى رحمہ اللہ سےدرج ذيل سوال كيا گيا:

درج مسئلہ ميں آپ كى رائے كيا ہے؟

اگر ايك شخص دوسرے كو اپنى بيٹى يا اپنے بيٹے كے رشتہ كے ليے بھيجے تو اس نے وہ رشتہ قبول كر ليا اور رخصتى كے وقت عقد نكاح كا وعدہ كر ليا اور اسے لباس وغيرہ بھيج ديا، پھر عورت كے گھر والوں كو پيغام بھيجا كہ اس كى رخصتى كر ديں تو انہوں نے لڑكى كو تيار كر كے اس كے ساتھ بھيج ديا اور اس شخص نے بغير گواہوں اور عقد كے دخول كر ليا يہ گمان كرتے ہوئے كہ والدين كى جانب سے عقد ہو چكا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اس شخص اور عورت كے مابين عليحدگى كرا واجب ہے اور يہ نہيں كہا جائيگا كہ نكاح فسخ ہو گيا ہے؛ كيونكہ نكاح تو ہوا ہى نہيں، اور اسے استبرا رحم كرنا ہوگا...

تحفہ كى شرح ميں علامہ تاودى كہتے ہيں:

" ابو سالم ابراہيم جلالى سے دريافت كيا گيا كہ: لوگوں كى عادت ہے كہ ايك شخص اپنے يا اپنے بيٹے كے ليے كوئى شخص كسى عورت كا رشتہ طلب كرتا ہے تو عورت كے گھر والے وہ رشتہ قبول كر كے رخصتى كى رات عقد نكاح كرنے كا وعدہ كر ليتے ہيں، پھر منگيتر اسے مہندى وغيرہ اور مختلف تقريبات پر لباس وغيرہ بھيجتا ہے، منگنى كے وقت عورتيں وہاں جاتى ہيں اور لوگوں كو بھى علم ہے كہ فلاں عورت نے فلاں شخص سے شادى كى ہے پھر اس شخص كو موت آ جاتى ہے يا كوئى اختلاف پڑ جاتا ہے تو كيا كيا جائيگا ؟

شيخ كے جواب كا ماحاصل يہ ہے:

اگر تو ان كے ہاں يہ عادت ہے كہ منگنى اور اس رشتہ كو قبول كرنا يہ عقد نكاح كے ليے راستہ ہموار كرنا ہے اور عقد نكاح رخصتى كے وقت ہوگا، تو ان كے مابين جو كچھ ہوا اسے لازم نہيں كيا جائيگا، بلكہ يہ تو ايك دوسرے كى طرف ميلان ہے تو اس ميں نكاح منعقد نہ ہونے ميں كوئى اشكال نہيں اور نہ ہى اس صورت ميں نكاح كے احكام مرتب ہونگے.

اور اگر ان كے ہاں يہ عادت ہو كہ يہ عقد نكاح كى جگہ ہوتا ہے .... تو پھر اس نكاح كےمنعقد ہونے ميں كوئى اشكال نہيں ، اور اس كے نتيجہ ميں نكاح كے احكام مرتب ہونگے.

اور اگر حالت مجہول ہو وہ اس طرح كہ اگر ان سے دريافت كيا جائے كہ: كيا ان كا ارادہ وعدہ كا تھا، يا كہ تنفيذ كا اور وہ كوئى جواب نہ دين تو اس صورت ميں المزدغى كا فتوى يہ ہے كہ:

نكاح منعقد ہوگا اور اس كے احكام لاگو ہونگے، ليكن البقينى نے اس كے خلاق عدم نكاح كا فتوى ديا ہے.

پھر تاودى كہتے ہيں: حاصل يہ ہے كہ: اگر تو ان كے ہاں عادت ہو كہ منگنى اور اس رشتہ كو قبول كرنا عقد نكاح شمار كيا جاتا ہو، چاہے خاوند اور ولى كے نائب كى جانب سے ہو اور خاوند اور بيوى دونوں رضامند ہوں تو ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اس سے نكاح ہو جائيگا اور نكاح كے احكام مرتب ہونگے اور اگر عادت يہ ہو كہ اس سے صرف رشتہ قبول ہے سكوت يا وعدہ ہو تو پھر عقد نكاح نہيں ہوگا, واللہ اعلم.

عادت كو سكوت كى حالت ميں ديكھا جائيگا، ليكن وعدہ كى تصريح كے وقت يعنى جب وعدہ كيا جائے كہ عقد نكاح رخصتى كى رات ہوگا تو پھر نہيں؛ كيونكہ يہ چيز عادت كو منسوخ كرتى ہے، جب اسے عقد نكاح ثابت كيا جائے" انتہى

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عليش ( 1/ 420 ) اور التاودى ( 1 / 17 ) اور شرح ميارۃ على الحكام ( 1 / 155 ) بھى ديكھيں.

اس وقت غالب يہى ہے كہ لوگ منگنى اور عقد نكاح ميں فرق كرتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب