الحمد للہ.
اول:
جن اعضا کو دھونے کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے انہیں دھونا واجب ہے، اسی طرح متعلقہ پورے عضو کو دھونا بھی لازم ہے کہ عضو کا کوئی حصہ ایسا نہ ہو کہ جہاں پانی نہ پہنچے۔
اور اگر جس عضو کو اللہ تعالی نے دھونے کا حکم دیا ہے اس میں زخم ہے، اور پانی سے دھونے کی صورت میں زخم بگڑ سکتا ہے یا شفا یابی میں تاخیر ہو گی تو زخم کھلا ہونے کی صورت میں اس پر مسح کرنا ممکن بھی ہو تو مسح کر لے، لیکن اگر زخم تو کھلا ہوا ہے لیکن اس پر مسح نہیں کیا جا سکتا تو متعلقہ عضو جس حد تک دھو سکتا ہے اسے دھو لے، اور جو حصہ بچ جائے اس کی طرف سے تیمم کر لے اب وہ زخم پر مسح نہیں کرے گا۔
اور اگر زخم پر پٹی بندھی ہوئی ہے، یا پلاسٹ لگا ہوا ہے ، یا کوئی ایسی دوا لگی ہوئی ہے جو زخم تک پانی نہ پہنچنے دے تو وہ پٹی پر یا پلاسٹ پر مسح کر لے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/172-173)میں کہتے ہیں:
"امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: ایسا شخص وضو کرتے ہوئے زخم پر پانی لگنے کی وجہ سے زخم خراب ہونے کا خدشہ رکھے تو وہ اپنی پٹی پر مسح کر لے۔
اسی طرح اگر زخم پر دوا لگی ہوئی ہے اور دوا ہٹانے سے زخم خراب ہو گا تو ا س پر بھی مسح کرے۔ امام احمد نے اس کی صراحت کی ہے۔
اثرم رحمہ اللہ نے اپنی سند سے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی سند سے بیان کیا ہے کہ ان کے انگوٹھے پر پھوڑا نکل آیا تو انہوں نے اس پر پِتا باندھ لیا اور سیدنا ابن عمر اس کے اوپر سے وضو کیا کرتے تھے۔
اگر کسی کا ناخن ٹوٹ جائے، یا انگلی پر لگے ہوئے زخم کے بارے میں خدشہ ہو کہ اگر پانی لگا تو زخم خراب ہو جائے گا تو اس پر مسح کرنا جائز ہے۔ امام احمد نے صراحت سے یہ بات کہی ہے ۔ قاضی رحمہ اللہ نے زخم پر چپکی ہوئی پٹی کے بارے میں کہا ہے کہ: اگر اس پٹی کو اتارنے سے نقصان نہ ہو تو پٹی کو اتارے، اور صحیح حصہ دھو لے، اور زخم کی جگہ کے بدلے میں تیمم کر لے، اور زخم پر مسح کرے، اور اگر اسے اتارنے میں نقصان ہو تو اس کا حکم پٹی والا ہی ہے اس پر مسح کیا جائے گا۔" ختم شد
مزید کے لیے دیکھیں: "الموسوعة الفقهية" (14 / 273)
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (5 / 357)میں ہے:
"اگر وضو کے اعضا میں سے کسی عضو میں زخم ہو جس کی وجہ سے اس حصے کو دھونا یا اس پر مسح کرنا ممکن نہ ہو کہ اگر اسے دھویا یا پانی کا مسح کیا تو اس سے زخم خراب ہو جائے گا یا شفا یابی میں تاخیر ہو گی تو اس شخص پر تیمم کرنا واجب ہے۔" ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر وضو کے اعضا میں سے کسی عضو پر زخم ہو تو اس کے متعدد درجے ہیں:
پہلا درجہ: زخم کھلا ہو اور اسے دھونے سے نقصان بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں اسے دھونا واجب ہے۔
دوسرا درجہ: زخم کھلا ہو اور دھونے سے اسے نقصان ہو مسح کرنے سے نہ ہو تو پھر اس صورت میں زخم کو دھویا نہیں جائے گا بلکہ اس پر مسح کیا جائے گا۔
تیسرا درجہ: زخم کھلا ہوا ہو اور دھونے یا اس پر مسح کرنے سے نقصان ہو گا تو اس صورت میں تیمم کرے گا۔
چوتھا درجہ: زخم کسی ضروری پٹی یا پلاسٹ وغیرہ سے ڈھکا ہوا ہو اور اس کی ضرورت بھی ہو تو ایسی صورت میں اس پٹی یا پلاسٹ وغیرہ پر مسح کرے اور اسے دھونے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی تیمم کرے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (11 / 121)
مندرجہ بالا تفصیلات کی روشنی میں:
اگر آپ کی انگلی کا زخم پانی لگنے سے خراب نہیں ہو گا تو اسے دھونا لازم ہے، اور اگر دھونے سے اسے نقصان ہو گا لیکن مسح کرنے سے نقصان نہیں ہو گا تو پھر اس پر مسح کرنا واجب ہے، اور اگر دھونے اور مسح کرنے دونوں سے ہی نقصان ہو گا اور آپ نے زخم پر پٹی بھی باندھی ہوئی ہے تو پھر آپ کے لیے پٹی پر مسح کرنا ہی کافی ہے۔
دوم:
موزوں پر مسح کے حوالے سے یہ ہے کہ: اگر آپ نے پورا قدم دھو لیا تھا، یا جتنا دھو سکتے تھے اتنا دھویا اور بقیہ زخمی حصے پر مندرجہ بالا تفصیلات کی روشنی میں مسح کیا ، اور آپ نے اسی وضو کی حالت میں موزے پہنے تو آپ کے لیے دونوں موزوں پر مسح کرنا جائز ہے۔ حالتِ اقامت میں ایک دن اور رات مسح کر سکتے ہیں اور سفر کی حالت میں تین دن اور راتیں مسح کر سکتے ہیں۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/176-177)میں کہتے ہیں:
"اگر ایسے وضو کے بعد موزے پہنے کہ جس میں زخم پر بندھی پٹی پر مسح کیا تھا تو ان موزوں پر مسح کرنا جائز ہے؛ کیونکہ مسح علی الخفین والی طہارت عزیمت ہے؛ اور ویسے بھی اگر یہ طہارت ناقص تھی تو جس وجہ سے ناقص تھی وہ وجہ اب بھی موجود ہے اس لیے مسح کی اجازت جاری ہے، بالکل ایسے ہی جیسے مستحاضہ عورت کی طہارت ناقص تو ہوتی ہے لیکن جب تک اس کا عذر زائل نہیں ہوتا یہی اس کی مکمل طہارت ہے، اور اگر پٹی ایسا وضو کر کے باندھی جس میں پہلے سے بندھی ہوئی پٹی پر مسح کیا تھا، تو اب اس دوسری پٹی پر بھی مسح کرنا جائز ہے۔" ختم شد
ابن مفلح رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر موزہ ایسے وضو میں پہنا کہ جسے کرتے ہوئے پٹی پر مسح کیا تھا تو اب موزے پر مسح کر سکتا ہے۔" ختم شد
"الفروع" (1/198)
واللہ اعلم