الحمد للہ.
اول:
ازدواجى زندگى حسن معاشرت اور بات چيت اور محبت و مودت اور افہام و تفہيم اور ايك دوسرے كے حقوق كى پہچان اور واجب اور افضل كے مابين فرق كرنے پر قائم ہونى چاہيے، كيونكہ ان سب امور كو مدنظر ركھنے سے خاوند اور بيوى سعادت مند زندگى بسر كر سكتے ہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو النساء ( 19 ).
اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے بھى اسى طرح كے حقوق ہيں جس طرح ان عورتوں پر ( مردوں كے ) ہيں اچھے طريقہ سے، اور مردوں كو ان عورتوں پر فضيلت حاصل ہے، اور اللہ تعالى غالب و حكمت والا ہے البقرۃ ( 228 ).
خاوند اور بيوى كے مابين اختلاف كے وقت كتاب و سنت يعنى شريعت اسلاميہ كى طرف رجوع كرنا چاہيے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اگر تم كسى چيز ميں اختلاف و تنازع كر بيٹھو تو اسے اللہ اور اس كے رسول كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، يہ بہتر ہے اور اس كا انجام بھى اچھا ہے النساء ( 59 ).
دوم:
بيوى كا حق ہے كہ اسے عليحدہ رہائش دى جائے جہاں وہ اپنے خاوند اور بچوں كے ساتھ رہ سكے، اور اس رہائش ميں كوئى اور شريك نہ ہو، نہ تو ساس اور سسر اور نہ ہى كوئى اور رشتہ دار.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
انہيں تم وہاں رہائش دو جہاں تم خود رہتے ہو اپنى استطاعت كے مطابق الطلاق ( 6 ).
جمہور فقھاء كرام جن ميں احناف شافعيہ اور حنابلہ شامل ہيں كا مسلك يہى ہے، ان كى رائے ہے كہ بيوى كو اپنى ساس اور سسر اور نندوں كے ساتھ رہنے سے انكار كرنے كا حق حاصل ہے.
آپ اس كى مزيد تفصيل سوال نمبر ( 94965 ) كے جواب ميں ديكھ سكتى ہيں.
سوم:
عورت پر اپنى ساس اور سسر كى خدمت كرنا واجب نہيں ہے، بلكہ وہ اسے مروت اور فضيلت سمجھ كر كرے، اور اپنے خاوند كى عزت و تكريم اور احترام كى خاطر اس كے والدين كى خدمت كرے تو اس ميں فقھاء كا كوئى اختلاف نہيں ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ميرا سسر بيمار ہے اور وہ ہمارے ساتھ رہنے كے ليے آيا ہے اس كى بنا پر ہمارے مابين مشكلات پيدا ہو سكتى ہيں مجھے بتائيں كہ اس سلسلہ ميں ميرى ذمہ دارى كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" عورت پر اپنے سسر يا ساس يا خاوند كے كسى رشتہ دار كى خدمت كرنا واجب نہيں، بلكہ يہ چيز مروت ميں شامل ہوتى ہے كہ اگر وہ گھر ميں ہو تو ساس سسر كى خدمت كرے، ليكن خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ بيوى پر اس كو لازم كرے، كيونكہ يہ بيوى پر واجب نہيں، ميں يہ كہتا ہوں كہ سسر كى خدمت كرنے ميں بيوى كو صبر كرنا چاہيے، اور اسے يہ علم ركھنا چاہيے كہ اس سے اسے كوئى نقصان و ضرر نہيں ہوگا، بلكہ ايسا كرنے پر اس كا خاوند اسے اور زيادہ پسند كريگا اور اسے شرف و مقام حاصل ہوگا "
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والا ہے " انتہى
ماخوذ از: فتاوى العلماء فى عشرۃ النساء و حل المشكلا الزوجيۃ ( 128 ).
اس سے يہ واضح ہوا كہ ہمارے اس مسئلہ ميں واجب بھى ہے اور افضل بھى، رہا واجب تو وہ خاوند پر واجب ہے كہ بيوى كے ليے عليحدہ اور خاص رہائش مہيا كرے جو بيوى چاہتى ہے اور رہا افضل اور فضيلت كى بات تو وہ يہ ہے كہ بيوى اپنى ساس اور سسر كى خدمت كرے، يہ كوئى انصاف كى بات نہيں كہ خود واجب ترك كرتا پھرے اور دوسرے سے فضيلت اور افضل چيز كا مطالبہ كرے.
والدين سے محبت اور ان كى عزت و احترام اور ان سے حسن سلوك كرنے كى حرص ركھنے پر خاوند كى تعريف كى جائيگى، اور اسى طرح آپ بھى قابل تعريف ہونگى كہ اپنى ساس اور سسر كى ديكھ بھال كريں، يہ نيك و صالح عمل ہے اللہ تعالى آپ كو اس كا اجروثواب دےگا.
ہمازى عزيز بہن ہم آپ كو نصيحت كرتے ہوئے ذيل ميں چند ايك باتيں كہيں گے:
1 ـ آپ ازدواجى زندگى كى اساس اور بيناد بات چيت اور افہام و تفہيم اور شريعت كو حاكم بنا كر قائم كريں.
2 ـ آپ خاوند كو عليحدہ رہائش مہيا كرنے پر مطئمن اور راضى كريں، جس كے نتيجہ ميں اس كو ہى راحت و سكون حاصل ہوگا.
3 ـ جب تك آپ اپنى ساس سسر سے دور رہتى ہيں اور آپ كے وہ محتاج نہيں تو آپ خاوند سے والدين كى خدمت كے متعلق بات چيت مت كريں، بلكہ آپ كے ليے وہى اچھى كلام كافى ہے جو آپ نے ذكر كى ہے.
4 ـ آپ خاوند كے ليے كوئى عذر تلاش كريں، كيونكہ بعض معاشروں ميں لوگوں كے ہاں اصل يہى ہے كہ ساس اور سسر كے ساتھ رہ كر ان كى خدمت كى جائے، اور اس سے دور جانا اور ايسا نہ كرنا كوتاہى شمار ہوتى ہے، اور بيٹے كو والدين كا نافرمان اور بيوى كو والدين سے قطع رحمى پر ابھارنے والى شمار كيا جاتا ہے.
اس كے باعث خاوند اپنے والدين كے ساتھ مشكل ميں پڑ جائيگا اور وہ انہيں نہيں چھوڑ سكےگا، اور نہ ہى بيوى كى رغبت پورى كر سكےگا، تو اس حالت پر اثرانداز ہونے ميں وہ ايسى بيوى حاصل كر سكےگا جو اس كے والدين كے ساتھ رہ كر ان كى خدمت بھى كريگى.
اور خاوند كو چاہيے كہ وہ شادى كرنے سے قبل بتا دے تا كہ بعد ميں مشكلات پيدا نہ ہوں، اور وہ خاوند كو راضى كرنے كے ليے اپنے حق سے دستبردار ہونے پر مجبور نہ ہو، ليكن ايك عقلمند بيوى اس مسئلے كا علاج بڑى حكمت كے ساتھ كر سكتى ہے، اور نرمى كے ساتھ اپنى ضرورت بھى پورى كروا سكتى ہے.
5 ـ ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اللہ كى طرف رجوع كرتے ہوئے دعا كا سہارا ليں اور اس سے توفيق و صحيح راہ طلب كريں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى ہى سب سے بہتر مددگار اور نصرت كرنے والا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى ہميں اور آپ كو اپنى اطاعت اور رضا خوشنودى والے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .