جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كيا بيوى كو خاوند سے سوال كرنےكا حق حاصل ہے كہ وہ كہاں جا رہا ہے، يا كہ ايسا كرناحرام ہے ؟

148449

تاریخ اشاعت : 20-04-2011

مشاہدات : 6330

سوال

كيا شريعت بيوى كو اپنے خاوند سے دريافت كرنے سے منع كرتى ہے كہ وہ كہاں جا رہا ہے، كيا شريعت ميں بيوى كے ليے ايسے سوالات كرنا حرام ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شريعت اسلاميہ نے خاوند اور بيوى دونوں پر واجب قرار ديا ہے كہ وہ ايك دوسرے سے حسن معاشرت كے ساتھ پيش آئيں اور آپس ميں اچھے طريقہ سے بود و باش اختيار كريں.

ابن كثير رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" قولہ عزوجل:

اور ان ( بيويوں ) كے ساتھ اچھے طريقہ سے بود و باش اختيار كرو النساء ( 19 ).

يعنى حسب استطاعت بيوى كو اچھى بات كہو، اور اپنے افعال ميں بھى اچھائى اختيار كرو، اور اپنى شكل و صورت بھى اچھى بناؤ، جيسا آپ خود چاہتے ہيں كہ وہ آپ كے ليے يہ سب كچھ كرے، تو بالكل اسى طرح آپ بھى وہى كچھ كريں جو اس سے چاہتے ہيں.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ان ( عورتوں ) كے بھى بالكل اسى طرح حقوق ہيں جس طرح ان پر حقوق ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ البقرۃ ( 228 ).

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 242 ).

اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ خاوند اور بيوى كے حقوق ميں فرق پايا جاتا ہے، اور اسى طرح بيوى اور خاوند كى طبيعت ميں بھى فرق ہوتا ہے.

مثلا بيوى اپنے خاوند كى اجازت كے بغير گھر سے باہر نہيں نكل سكتى، ليكن خاوند كے ليے ايسا نہيں كہ وہ بھى اپنى بيوى سے اجازت لے كر اور اسے بتا كر ہى جائے.

اسى طرح بيوى اپنے خاوند كے گھر ميں كيسى ايسے شخص كو داخل ہونے كى اجازت نہيں دے سكتى جسے خاوند پسند نہيں كرتا، ليكن يہ چيز خاوند كے ليے نہيں ہے كہ وہ بھى بيوى كى اجازت كے بغير كسى كو نہ داخل ہونے دے.

اس كے علاوہ ازدواجى زندگى ميں اور بھى كئى ايك معاملات ايسے ہيں جنہيں خاوند جانتا ہے اور شريعت مطہرہ نے اسے بيان كيا ہے، يا پھر عرف عام ميں عادتا معروف ہيں.

كسى بھى عرف ميں اور نہ ہى شريعت الہى ميں يہ چيز معروف ہے كہ بيوى كو يہ حق پہنچتا ہے كہ اسےمعلوم ہونا چاہيے كہ اس كا خاوند كہاں جا رہا ہے، اور كہاں نكل رہا ہے؛ كيونكہ اصل ميں خاوند نے تو كئى كاموں اور مصلحتوں كے ليے گھر سے جانا ہوتا ہے؛ ان كا تعلق كام كاج سے بھى ہوتا ہے اور عبادت سے بھى اور صلہ رحمى كے ساتھ بھى، اس ليے يہ ناممكن ہے كہ بيوى كو حق ديا جا سكے كہ خاوند جاتے وقت بيوى كو بتا كر جائے كہ وہ كہاں جا رہا ہے اور كس كام كے ليے نكل رہا ہے.

اور يہ چيز طبعى طور پر بيوى كے ليے نہيں ہے كيونكہ وہ تو گھر سے نادر ہى نكل كر جاتى ہے، اور اس ليے بھى كہ اس كے سارے امور اور معاملات تو گھر كے ساتھ ہى وابستہ ہيں.

ليكن اس كے ساتھ ساتھ ہم يہ نہيں كہ سكتے كہ بيوى كے ليے خاوند سے دريافت كرنا حرام ہوگا كہ وہ كہاں جا رہا ہے، بلكہ ابھى تك لوگ ديكھتے ہيں كہ خاوند اپنى بيوى كو بتا كر جاتا ہے، اور خاص كر جوانى كى عمر ميں.

يا پھر ہو سكتا ہے اس كا تعلق صرف خاوند كے ساتھ ہو يا پھر اس كى كوئى سوكن ہو، اور وہ ڈرتى ہو كہ كہيں وہ اس كى بارى ميں دوسرى بيوى كے پاس نہ چلا جائے، يا اسے خدشہ ہو كہ خاوند كا سلوك پسنديدہ نہ ہو.

ليكن يہ چيز قبول اور تحمل كى حدود ميں رہنا چاہيے جبكہ خروج قليل ہو، اور كبھى كبھار ايسا ہوتا ہو، ليكن يہ عام طبيعت نہيں بن سكتى كہ وہ جب بھى گھر ميں آئے يا گھر سے نكلے تو بيوى كو بتا كر جائے، كيونكہ ايسا تو كوئى خاوند برداشت نہيں كر سكتا يا پھر اس سے اچھى زندگى بسر نہيں ہو سكتى.

ليكن ہم خاوند كو تنبيہ كرتے ہيں كہ ان كے ليے بہتر اور افضل يہى ہے كہ جب زيادہ مدت كے ليے جا رہے ہوں تو وہ اپنى بيويوں كو بتا كر جائيں كہ وہ كہاں جا رہے ہيں، يا پھر وہ ايسى جگہ اور ايسے كام كے ليے جا رہا ہو جو خطرناك ہو؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں بہت سارے فوائد پائے جاتے ہيں:

اول:

اس سے بيوى كى قدر و قيمت ميں اضافہ ہوتا ہے، اور اسے وہ اہميت دى جائيگى جس كا ايك شريك حياۃ مستحق ہوتا ہے.

دوم:

زيادہ مدت دور اور غائب رہنے كى بنا پر بيوى كو جو پريشانى لاحق ہو گى اس سے بيوى بچ جائيگى.

سوم:

اگر خاوند خطرناك جگہ گيا ہو اور طويل عرصہ تك واپس نہ آئے تو پھر اسے جلدى تلاش كيا جا سكتا ہے، مثلا امن و عامہ كے محكمہ سے رابطہ كر كے، يا پھر ايسے مد مقابل سے ملاقات كر كے جس سے اسے خطرہ تھا، يا پھر كسى ايسى جگہ گيا ہو جہاں كا امن و امان ہى بحال نہيں.

بعض جگہوں پر جانے كا بيوى كو بتانے ميں پہل كرنا بہت ہى اچھى بات ہے اور اس ميں خير ہے قبل اس كے كہ بيوى خود دريافت كرے.

ہمارى تو رائے يہى ہے كہ اس طرح كے معاملات ميں بيوى كو اعتماد ميں لينا اور اسے بتانا ازدواجى تعلقات ميں بہترى اور تقويت كا باعث بنتا ہے، اور آپس ميں ايك دوسرے سے محبت و الفت اور تعلق ميں اضافہ كا باعث ہے.

ہم بيوى كو تنبيہ كرتے ہيں اور ايسا كرنے سے اجتناب كرتے ہيں كہ جب بھى خاوند گھر سے جانے لگے يا پھر نكلے تو وہ ہر بار اس سے دريافت مت كرے كہ وہ كہاں جا رہا ہے كيونكہ ايسے سوالات عام طور پر خاوند كو اچھے نہيں لگتے اس ليے عقل و دانش ركھنے والى اور تجربہ كار مائيں اپنى بيٹيوں كو شادى سے قبل ہى بتا ديتى ہيں كہ وہ خاوند سے اس طرح كے سوالات مت كريں.

اسى طرح ہم اپنى فاضلہ بہنوں كو يہ تنبيہ كرتے ہيں كہ وہ اپنے خاوندوں كو ـ بعض اوقات چاہے زيادہ ہى ہو ـ نصيحت كيا كريں كہ وہ گھر سے كمائى وغيرہ يا پھر شب بيدارى كے ليے نكلنے ميں اللہ كا خوف كريں.

اميد ہے اس طرح كى نصيحت كسى ايك خاوند كى ہدايت كا سبب بن جائے اور وہ حرام كام سے باز آ جائے يا پھر واجب كو ترك كرنے سے اجتناب كرے.

خاوند اور بيوى كے ايك دوسرے پر حقوق كو جاننے كے ليے آپ سوال نمبر ( 10680) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اور يہ معلوم كرنے كے ليے كہ عورت اپنے خاوند كى اطاعت كيوں كرتى ہے سوال نمبر ( 13661 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اور خاوند كى اجازت كے بغير بيوى كا گھر سے نكلنے كا حكم جاننے كے ليے آپ سوال نمبر ( 69937 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب