اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیانوح علیہ السلام کی کشتی مل چکی ہے

سوال

میں نے یہ سنا ہے کہ نوح علیہ السلام کی کشتی چند سال قبل ملی ہے جس کا مرجع قرآن مجید تھا اورانجیل اس کے معارض تھی توکیا یہ صحیح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

ان سے پہلے قوم نوح نے بھی ہمارے بندوں کوجھٹلایا تھا اور دیوانہ بتلا کرجھڑک دیا تھا ، تواس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں بے بس ہوں تومیری مدد کر، پس ہم نے آسمان کے دروازے زور کے مینہ سے کھول دیا ، اورزمین سے چشموں کو جاری کردیا تو پانی اس کام کے لیے جمع ہوگیا جومقدر کیا گيا تھا ، اورہم نے اسے تختوں اور کیلوں والی ( کشتی ) پر سوار کرلیا ، جوہماری نظروں کے سامنے چل رہی تھی یہ اس کا کی طرف سے بدلہ تھا جس کا کفر کیا گیا ، اور بلاشبہ ہم نے اس واقعہ کو نشانی بنا کر باقی رکھا کوئ‏ ہے نصیحت حاصل کرنے والا بتاؤ میرا عذاب اور میری ڈرانے والی باتیں کیسی رہیں ؟ القمر ( 9-16 )۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتے ہیں :

فرمان باری تعالی ہے ، اور بلاشبہ ہم نے اس واقعہ کو نشانی بنا کر باقی رکھا کوئ‏ ہے نصیحت حاصل کرنے والا

اس سے مراد عبرت ہے ، اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ اس سے کشتی مراد ہے کہ اسے بطور نشانی چھوڑ دیا کہ نوح علیہ السلام کے بعدآنے والی قوم اس سے عبرت حاصل کرے اوررسولوں کی تکذيب نہ کریں ۔

قتادہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ اللہ تعالی نے اس کشتی کوجزیرہ میں ایک باقردی نامی جگہ میں بطورعبرت اورنشانی ( عراق میں ایک جگہ کا نام ہے ) چھوڑ دیا حتی کہ اس امت کے پہلے لوگوں نے اسے دیکھا ، حالانکہ اس کے بعد کتنی کشتیاں تھیں جو کہ مٹی اورریت بن چکیں ہيں ۔

اورظاہریہی ہے کہ اس سے جنس سفن (کشتی ) مراد ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :

اور ان کے لیے ایک نشانی ( یہ بھی ) ہے کہ ہم نے ان کی نسل کوبھری ہوۓ کشتی میں سوار کیا ، اور ان کے لیے اس جیسی اورچيزيں پیدا کیں جن پریہ سوارہوتے ہيں یس ( 41 - 42 ) ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

جب پانی میں طغیانی آگئ تواس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا تا کہ اسے تمہارے لیے نصیحت اوریادگار بنا دیں اور ( تاکہ ) یادرکھنے والے کان اسے یاد رکھیں الحاقۃ ( 11 - 12 ) ۔

تواس لیے یہاں کہاں کہ (کوئ‏ ہے نصیحت حاصل کرنے والا ) یعنی کوئ ایسا ہے جو نصیحت اورعبرت حاصل کرے ۔ انتھی ۔

تواس طرح حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کی اس آیت ( ولقد ترکناھا ) کی تفسیر تین اقوال پرمشتمل ہے :

اول :

یہ اس سے مراد یہ ہو کہ ہم نے آنے والوں کے لیے یہ قصہ عبرت اورنصیحت کے چھوڑا ۔

دوم :

یہ اس سے مراد یہ ہو کہ ہم نے نوح علیہ السلام کی کشتی کوباقی رکھا تا کہ آنے والی قومیں اسے دیکھ کر نصیحت حاصل کریں اورعبرت پکڑیں کہ اللہ تعالی مومنوں کونجات اورکافروں کوھلاک کرتا ہے ۔

سوم :

یہ کہ اس سے مراد یہ ہو ہم نے جنس سفن ( کشتی ) کوزمین میں چھوڑا اور انسان کوسکھایا تاکہ وہ عبرت حاصل کرے کہ اس پر کس طرح اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں ، اور کس طرح نوح علیہ السلام اورمومنوں کوان موجود اورمعروف کشتیوں کی مثل سے نجات دینے کے بعد ان کی اولاد باقی رکھی ۔

بہرحال نوح علیہ السلام کی کشتی کا مل جانا اوراسے نوح علیہ السلام کے بعدآنے والی قوموں کا دیکھ لینا تا کہ یہ کشتی ان کے لیے باعث عبرت اورنصیحت ہو نہ توخلاف شرع ہے اورنہ ہی خلاف عقل ۔

لیکن کشتی کے ثبوت کی کیفیت میں ہرملنے والی کشتی کے بارہ میں کہنا کہ یہ نوح علیہ السلام کی کشتی ہے توجوبھی پرانی کشتی پاۓ اوروہ یہ دعوی کردے کہ یہ کشتی نوح ہے اور اس کے اس دعوی کو مان لیا جاۓ ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد