بدھ 13 ربیع الثانی 1446 - 16 اکتوبر 2024
اردو

ایسے مال سے حج کرنا جو اصل میں سودی قرضہ ہو

سوال

میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک سودی بینک سے گاڑی خریدنے کیلئے قرض لیا تھا ، لیکن میں اب سودی لین دین پر افسردہ ہوں، اور میں نے اللہ تعالی سے توبہ کر لی ہے، اللہ تعالی میری توبہ قبول فرمائے، میں نے اس گاڑی کو فروخت کردیا ہے، اور اس سال میں نے حج کرنے کی نیت کی ہے، میرے پاس رقم نہیں ہے، کیا میرا اس گاڑی کی قیمت سے حج کرنا صحیح ہوگا؟ یاد رہے میں اس سودی قرضے کی اقساط بینک کو اپنی ماہانہ تنخواہ سے ادا کر رہا ہوں، کہ مجھ تک تنخواہ آنے سے کچھ دن پہلے ہی کٹوتی ہوجاتی ہے، اور میرے پاس اسکے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں ہے، میری راہنمائی کردیں ، جزاکم اللہ خیرا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

سودی قرضہ لینا یا دینا ہر طرح سے ناجائز ہے، اور جو شخص یہ کام کر رہا ہے اس کیلئے توبہ کرنا ضروری ہے، اور سودی لین دین چھوڑدے، اور اس پر پشیمان بھی ہو اور آئندہ نہ کرنے کا بھی عزم کرے۔

سودی قرض لینا اگرچہ حرام ہے لیکن آپ اس کے مالک ہیں، آپ اسے کہیں بھی جائز کام میں استعمال کر سکتے ہیں، جیسے آپ اس قرض سے کار خرید لیں ، وغیرہ

آپ مزید جاننے کیلئے دیکھیں: "المنفعة في القرض" لعبد الله بن محمد العمرانی، ص 245- 254 ملاحظہ کریں

مذکورہ بالا بیان کے بعد ؛ آپ اپنے پاس موجود رقم سے حج کرسکتے ہو، لیکن سود سے توبہ کرنا لازمی ہے، جیسا کہ آپ نے اسکا ذکر بھی کیاہے، جبکہ اقساط کی ادئیگی آپ کیلئے مُضر نہیں ہے، آپ وہ ادا کردیں۔

ایسے ہی اگر آپ قرض کی ادائیگی کیلئے طاقت رکھتے ہو تو ایسے قرض کے ہوتے ہوئے حج کرنے میں کوئی حرج نہیں، چاہے قرض مؤجل ہو یا قسط وار۔

مزید تفصیل کیلئے آپ سوال نمبر: (3974) اور (4241) بھی ملاحظہ کریں۔

اللہ تعالی ہمیں اور آپکو نیک اعمال کی توفیق دے اور ہمیں سیدھے راستے پر رکھے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب