الحمد للہ.
اول:
خاوند پر واجب ہے كہ وہ اپنى بيوى كے ساتھ حسن معاشرت سے پيش آئے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم ان كے ساتھ حسن معاشرت سے پيش آؤ، اور اگر تم انہيں ناپسند كرو تو ہو سكتا ہے كہ تم كسى چيز كو ناپسند كرو اور اللہ تعالى اس ميں خير كثير پيدا كر دے النساء ( 19 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عورتوں كے ساتھ بہتر سلوك كيا كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3331 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1468 ).
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں كے ليے بہتر ہے، اور ميں تم ميں سے اپنے گھر والوں كے ليے بہتر ہوں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 3895 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1977 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
خاوند كے ليے بيوى كو مار مار كر لہولہان كرنا جائز نہيں ہے كہ وہ اسے اتنى اذيت و تكلف سے دوچار كرے، كيونكہ يہ ظلم اور زيادتى ہے اور اس سے خاوند گنہگار ہوگا اس ليے كہ اصل ميں مسلمان كى عزت اور مال اور خون جسم و جان يہ سب كو حرمت حاصل ہے، لہذا اسے اسى صورت ميں اور اسى وقت مارا جا سكتا ہے جس ميں شريعت نے اجازت دى ہو اور وہ بھى ہلكى سى، اور پھر اس وقت كہ جب خدشہ ہو كہ بيوى اطاعت سے باہر جا رہى ہو اور اسے وعظ و نصيحت كرنے اور اسى طرح اسے بستر ميں عليحدہ چھوڑنے سے بھى كوئى فائدہ نہ ہوا ہو تو پھر ہلكى سے مار مارى جا سكتى ہے.
امام بخارى رحمہ اللہ نے ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں سے خطاب كيا اور فرمايا:
" كيا تمہيں معلوم ہے كہ يہ دن كونسا ہے ؟
صحابہ كرام نے عرض كيا: اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم خوب جانتے ہيں.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا يہ يوم النحر نہيں ہے " ( يعنتى دس ذوالحجہ ) ہم نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ كونسا شہر ہے ؟
كيا يہ بلد حرام نہيں ؟
ہم نے عرض كيا:
اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيوں نہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
يقينا تمہارے خون اور تمہارے مال، اور تمہارى عزتيں اور تمہارى جلديں تم پر حرام ہيں، بالكل اسى طرح جس طرح تمہارے اس دن كى تمہارے اس مہينں ميں اور تمہارے اس شہر ميں اس دن كى حرمت ہے، خبردار كيا ميں نے پہچا ديا ؟
ہم نے عرض كيا: جى ہاں ، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اے اللہ گواہ رہنا "
ابشاركم: يہ بشرۃ كى جمع ہے جس كے معانى انسانى جلد اور چمڑے كا ظاہر ہے.
دوم:
اگر مذكورہ طريقہ سے ہى خاوند اپنى بيوى كو زدكوب كرتا رہے تو بيوى كے ليے اپنے آپ سے ضرر و نقصان دور كرنے كے ليے خاوند سے طلاق كا مطالبہ كرنا جائز ہو جاتا ہے، اور اسى طرح خاوند كے ظلم و زيادتى سے بچنے كے ليے اسے پوليس ميں رپورٹ كرنا بھى جائز ہو جائيگا، تا كہ وہ اس سے آئندہ بيوى كو زدكوب نہ كرنے كا عہد لے سكيں، اور اگر اس نے دوبارہ ايسا كيا تو وہ اسے قيد كر ديں گے جيسا اسٹام بھى لكھوا سكتے ہيں.
ليكن جس ملك ميں آپ رہتى ہيں اس ملك كے قوانين كو مد نظر ركھتے ہوئے ہو سكتا ہے خاوند كو ايسى سزا بھى دى جائے جو حلال نہيں ہے، مثلا خاوند كو اپنے گھر ميں داخل نہ ہونے كى سزا، يا پھر گھر كے قريب بھى نہ جانے دينا يا گھر كا فيصلہ بيوى كے حق ميں كر ديا جائے، يا پھر كچھ مدت كے ليے خاوند كو قيد كر دينا جو اس كے جرم كى سزا سے زائد ہو.
اس ليے ہم آپ كو يہ مشورہ نہيں ديتے كہ آپ ابتدا ميں ہى پوليس ميں رپورٹ كريں، بلكہ آپ پہلے اپنا معاملہ اسلامك سنٹر يعنى لندن كے اسلامكت سينٹر ميں لے جائيں ہو سكتا ہے اللہ سبحانہ و تعالى اسلامك سينٹر والوں كے ہاتھوں آپ دونوں كى صلح كرا دے.
اور آپ كا ان سے رابطہ كرنے ميں خير و بھلائى اور استقرار كا باعث بنے، اور ہو سكتا ہے وہ آپ كو پوليس ميں رپورٹ كرنے اور اس پر مرتب ہونے والے اثرات كے سلسلہ ميں كوئى اہم مشورہ ديں سكيں اور نصيحت كريں.
اور اگر خاوند كى حالت تبديل نہيں ہوتى اور آپ اس سے طلاق لينے كى رغبت بھى نہيں ركھتى تو پھر پوليس رپورٹ كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں خاوند پر كوئى ظالمانہ سزا نہيں ہونى چاہيے.
اور اگر فرض كريں كہ آپ كے حق ميں كوئى ايسا فيصلہ كر ديا جائے جو آپ كے ليے جائز نہيں مثلا خاوند كو گھر ميں داخل ہونے سے منع كر ديا جائے، تو پھر آپ كے ليے اس حكم پر عمل كرنا جائز نہيں.
كيونكہ حاكم كا حكم ـ اگرچہ وہ مسلمان بھى ہو ـ كسى حرام چيز كو حلال نہيں كر سكتا، اور نہ ہى كسى حلال چيز كو حرام كر سكتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے خاوند كو ہدايت نصيب كرے، اور اس كى حالت كى اصلاح فرمائے اور آپ دونوں كے معاملہ ميں بہترى فرمائے.
واللہ اعلم .