جمعرات 13 جمادی اولی 1446 - 14 نومبر 2024
اردو

طلاق كى عدت ختم ہوئى اور عدت ميں رجوع كے عدم يقين كے باوجود جماع كر ليا

149592

تاریخ اشاعت : 02-12-2013

مشاہدات : 4299

سوال

ميں جناب والا سے گزارش كرتا ہوں كہ آپ ميرى درج ذيل حالت كے متعلق شرعى حكم بتائيں:
ايك اسلامى مجلس ميں ايك فقہى فتوى پڑھنے كا موقع ملا جس ميں طلاق كے متعلقہ احكام بتائے گئے تھے، اس فتوى كو پڑھ كر ميرى موجودہ ازدواجى زندگى ميں بہت پريشانى پيدا ہوگئى، اس كے باعث ميں نے آپ كے سامنے ان شاء اللہ صحيح حالت لكھنے كا فيصلہ كيا تفصيلات درج ذيل ہيں:
ميرى شادى كو پندرہ برس سے زائد ہوئے ہيں، پچھلے سات ماہ كے علاوہ باقى مدت ميں اكيلا ہى مختلف علاقوں اور شہروں رہتا تھا، اور ميرى بيوى ميرے والدين كے ساتھ ميرے اصل وطن ميں رہتى تھى.
ميں سال ميں ايك يا دو بار والدين سے دو يا تين ہفتوں كے ليے ملنے جاتا، تقريبا گيارہ برس تك اسى طرح رہا، ميں نے بيوى كو لكھ كر ايك طلاق دى اور ميں مختلف ملكوں ميں كام كرتا رہا، ميرے خاندان كے بزرگوں نے يہ سوچا كہ بہتر يہى ہے كہ ميرى بيوى اپنے ميكے چلى جائے تا كہ دونوں كى حالت سدھر جائے اور بالفعل انہوں نے اسے ميكے بھيج ديا، اس كے دو ماہ بعد ميرے والد صاحب فوت ہوگئے اور ميں والدہ سے ملنے گيا تو مجھے علم ہوا كہ ميرى بيوى ميرى والدہ كى خدمت كے ليے واپس آ چكى ہے، ميں اس وقت ايك ہى كلمہ " اوكے " يعنى ٹھيك ہے كہا مجھے علم نہيں كہ آيا وہ دوران عدت واپس آئى يا عدت ختم ہونے كے بعد.
بہر حال ميں اس كے آنے پر مضطرب تھا كہ طلاق ختم نہيں كى تو وہ واپس بھى آ چكى ہے، ميں نے اسے كبھى بات نہيں كى، اور اسى طرح ايك برس تك نہ اسے ديكھا اور نہ ہى چھوا، ليكن چھ يا سات يا اس سے زائد ماہ كے بعد جنسى ميلان كے دباؤ كے تحت اس سے جنسى تعلقات قائم كر ليے، ليكن اس بار ميں پريشان ضرور تھا كہ كہيں يہ حرام نہ ہو ميں نے خيال كيا كہ جب ميں نے اسے تين طلاق كا نہيں كہا تو ہوم سكتا ہے يہ عمل صحيح ہى ہو.
اس طرح ميں جب بھى گھر جاتا ہمارے مابين خاوند اور بيوى كى زندگى چلتى رہى، پچھلے چند ايام ميں اس مسئلہ كو تلاش كرنے پر مجھے علم ہوا كہ جب ميں نے عدت ختم ہونے سے قبل طلاق ختم نہيں كى تو وہ طلاق بائن ہوگئى اور اس كے بعد ہمارے تعلقات غير شرعى ہوگئے، تو كيا آپ مجھے درج ذيل سوالات كے جواب دے سكتے ہيں:
اگر عدت ختم ہونے سے قبل اس كے واپس آجانے كے بعد ميرا اوكے كہہ دينا رجوع شمار ہوتا ہے حالانكہ ميرى نيت ميں رجوع نہ تھا كيا صحيح ہے ؟
تو كيا ہمارى ازدواجى زندگى حرام ہے ؟ اور كيا اسے زنا شمار كيا جائيگا ؟ اگر جواب اثبات ميں ہو اب مجھے كيا كرنا ہوگا ؟ برائے مہربانى تفصيل كے ساتھ جواب عنائت فرمائيں اللہ تعالى آپ كو جزائے خير دے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جب كوئى شخص اپنى بيوى كو طلاق دے اور يہ طلاق پہلى يا دوسرى ہو اور اس كى عدت ختم نہ ہوئى ہو تو قول كے ساتھ رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، مثلا ميں نے تجھ سے رجوع كر ليا، يا ميں نے تجھے ركھ ليا، يا كسى فعل كے ساتھ جس ميں وہ رجوع كى نيت ركھتا ہو يعنى رجوع كى نيت سے جماع كر لے تو بھى رجوع ہو جائيگا.

جس عورت كو حيض آتا ہو اس كى عدت تين حيض ہے اس ليے جب وہ تيسرے حيض سے پاك ہو كر غسل كر لے تو اس كى عدت ختم ہو جائيگى.

اور صغر سنى يا نااميدى كى بنا پر جس عورت كو حيض نہ آتا ہو اس كى عدت تين ماہ ہے.

اور حاملہ عورت كى عدت وضع حمل ہے.

دوم:

آپ كا اپنى بيوى كو اپنى ماں كے گھر واپس آئے ہوئے ديكھ كر اوكے كہنا، اور في الواقع آپ طلاق ختم نہيں كرنا چاہتے تھے، اور ايك سال تك آپ كا اسے نہ ديكھنا اور اس كے قريب نہ جانا يہ سب اس بات كى دليل ہے كہ اس اوكے كے الفاظ سے رجوع نہيں ہوا؛ كيونكہ آپ كا ارادہ رجوع كا نہيں تھا، بلكہ آپ كا اپنى ماہ كى خدمت اور اس كا وہاں رہنے كو اچھا سمجھنا اور موافقت كرنا تھا، اس وقت اس سے حكم مختلف نہيں ہوگا چاہے يہ الفاظ عدت كے دوران كہے يا عدت كے بعد كيونكہ يہ الفاظ رجوع نہيں تھے.

اس كے بعد جو جماع ہوا يہ عمل حرام ہے، اور آپ كو چاہيے تھا كہ آپ اس سے قبل اس كے بارہ ميں دريافت كرتے خاص كر جب آپ اپنے اس عمل سے پريشان تھے.

اس بنا پر آپ كو اپنے اس اقدام يعنى رجوع كيے بغير بيوى سے جماع كرنے پر اللہ سے توبہ كرنى چاہيے، اور آپ دونوں كو بيوى كے ولى اور گواہوں اور نكاح كى شروط اور مہر كى موجودگى ميں تجديد نكاح كرانا چاہيے، اگر دونوں نكاح كى رغبت ركھتے ہوں تو پھر ليكن اگر رغبت نہيں تو پھر عليحدگى كر ليں، اور آپ كے ليے نكاح كى تجديد كيے بغير اس كے قريب جانا جائز نہيں؛ كيونكہ وہ عورت آپ كے ليے اجنبى ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب