منگل 22 ذو القعدہ 1446 - 20 مئی 2025
اردو

اجنبی عورت سے گفتگو کے آداب

1497

تاریخ اشاعت : 25-05-2025

مشاہدات : 26

سوال

میں نے ایک حکم سنا ہے کہ مرد درج ذیل صورتوں میں اجنبی عورت سے بات کر سکتا ہے:

  • اس کے خاندان کے حالات دریافت کرنے کے لیے
  • طبی ضرورت کے تحت
  • خرید و فروخت کے وقت
  • نکاح کے ارادے سے تعارف حاصل کرنے کے لیے
  • اسلام کی دعوت دینے کے لیے

کیا یہ بات درست ہے؟ اور اس کی کیا دلیل ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اجنبی عورت سے گفتگو کے شرعی اصول قرآن کریم میں بیان کیے گئے ہیں:
1- اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
...وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ، ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ...
ترجمہ:  ۔۔۔اور جب تم نبی کی ازواج سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔۔۔ [الأحزاب: 53]

2- اور فرمایا:
فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا ترجمہ: پس تم نرمی سے بات نہ کرو کہ وہ جس کے دل میں بیماری ہے کوئی لالچ میں آ جائے، اور تم بات کرو تو اچھے انداز سے بات کرو۔ [الأحزاب: 32]

امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: ’’یعنی عورتیں بات کرتے وقت نرمی اور مٹھاس نہ اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا ہے کہ ان کی گفتگو مضبوط، صاف اور سنجیدہ ہو (یعنی ان کا کلام بامقصد اور مختصر ہو، جس میں نرمی اور دل لبھانے کا انداز نہ پایا جائے)۔ ان کی گفتگو میں ایسا لہجہ نہ ہو جو دلوں میں میلان اور تعلق پیدا کرے، جیسا کہ جاہلیت کی عورتوں کا طریقہ تھا کہ وہ مردوں سے ناز و ادا اور لچک دار آواز میں بات کیا کرتی تھیں، جیسے مشکوک اور بد کردار عورتیں کرتی تھیں تو  اللہ تعالیٰ نے انہیں اس طرزِ گفتگو سے روک دیا۔‘‘

اور فرمایا: ’’وہ شخص جس کے دل میں بیماری ہو — یعنی جو فسق و فجور یا عشق و غزل کا میلان رکھتا ہو — وہ اس نرمی سے طمع میں مبتلا ہو سکتا ہے۔‘‘

’’قول معروف‘‘ سے مراد وہ درست اور شائستہ بات ہے جسے شریعت بھی ناپسند نہ کرے اور جسے صحت مند فطرت بھی برا نہ سمجھے۔

اسی لیے عورت کو ہدایت دی گئی ہے کہ جب وہ اجنبی مردوں یا سسرالی رشتہ داروں سے بات کرے تو سخت اور سنجیدہ لہجے میں گفتگو کرے، مگر آواز نیچی رکھے؛ کیونکہ عورت کو نرم اور دلکش انداز میں بات کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

اسی بنا پر:
اجنبی عورت سے گفتگو صرف ضرورت کے تحت جائز ہے، جیسے:

  • فتویٰ معلوم کرنے کے لیے
  • خرید و فروخت کے دوران
  • گھر کے مالک خاوند کے متعلق دریافت کرنے کے لیے  وغیرہ وغیرہ۔

اور گفتگو مختصر، سنجیدہ اور بے ریب ہونی چاہیے؛ نہ اس کے موضوع میں فتنے کا خدشہ ہو، نہ اندازِ بیان میں۔

رہا یہ معاملہ کہ سوال میں مذکور پانچ مخصوص صورتوں کی، تو انہیں مثال کے طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے، لیکن گفتگو کو صرف انہی مواقع پر محدود کرنا درست نہیں؛ بلکہ ہر وہ جائز صورت جس میں شرعی آداب کا لحاظ رکھا جائے، وہاں اجنبی عورت سے بات کرنا جائز ہے، چاہے دعوت ہو، فتویٰ ہو یا خرید و فروخت وغیرہ۔

واللہ اعلم

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد