جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

مہر كى ادائيگى بيوى كے ذمہ والى شادى كا حكم

150813

تاریخ اشاعت : 26-08-2012

مشاہدات : 3494

سوال

ميرے ملك ميں لوگ اپنى بيٹى كے ساتھ رشتہ كرنے والے شخص كو مہر ادا كرتے ہيں، ليكن ميرے ليے مہر ادا كيے بغير اپنى بہن كى شادى كرنا ممكن نہيں، ميں نے پچھلے دو برس سے كوشش كى كہ كوئى ايسا شخص مل جائے جو مہر ليے بغير ميرى بہن سے شادى كرے ليكن كامياب نہيں ہو سكا، كيا مہر مطلب كرنے والے شخص كے ساتھ اپنى بہن كى شادى كرنا حرام نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ:

مہر كى ادائيگى خاوند پر بيوى كا حق ہے، يہ مہر خاوند اپنى بيوى كو ادا كريگا نہ كہ بيوى اپنے خاوند كو، كتاب و سنت اور اجماع امت ميں اس كے بہت دلائل پائے جاتے ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں پيش كيے جاتے ہيں:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم عورتوں كو ان كےمہر راضى خوشى ادا كرو، اگر وہ عورتيں اپنى مرضى سے مہر كا كچھ حصہ تمہيں ہبہ كر ديں تو پھر تم اسے ہنسى خوشى كھاؤ النساء ( 4 ).

امام طبرى رحمہ اللہ اس آيت كى تفسير ميں رقمطراز ہيں:

اللہ سبحانہ و تعالى كے اسے بيان كرنے كا معنى يہ ہے كہ تم عورتوں كو ان كے مہر ادا كرو يہ عطيہ واجب اور فرض اور لازم ہے " انتہى

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 45527 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

خاوند كے ليے يہ شرط لگانا جائز نہيں كہ وہ اپنى بيوى كا مہر بيوى يا اس كے ولى سے حاصل كريگا، بلكہ ايسى شرط لگانا باطل طريقہ سے مال كھانا اور ہڑپ كرنا كہلائيگا.

اور اگر خاوند ايسى كوئى شرط لگائے اور نكاح ہو جائے تو جمہور اہل علم كے ہاں يہ نكاح صحيح ہوگا، اور خاوند كچھ نہ كچھ مہر ضرور ادا كريگا، چاہے وہ فورى طور پر ادا كرے يا بعد ميں، اور اسے مہر نہ دينے كى شرط لگانے سے اجتناب كرنا چاہيے، كيونكہ بعض اہل علم كے ہاں اس صورت ميں نكاح صحيح نہيں ہوگا، اور اگر نكاح كے وقت خاوند خاموش رہے اور مہر مقرر نہ كرے تو پھر عورت كو مہر مثل ادا كيا جائيگا.

مزيد تفصيل كے ليے آپ المحلى ابن حزم ( 50 ) اور المغنى ابن قدامۃ ( 7 / 72 ) كا مطالعہ كريں.

ذيل ميں ہم ايسى شرط لگانے كى حرمت اور شرعى مخالفت ہونے كے متعلق علماء كرام كى كلام نقل كرتے ہيں:

ابن ابى شيبہ رحمہ اللہ نے اپنى كتاب مصنف ابن ابى شيبۃ ميں يحيى بن بشير سے روايت كيا ہے كہ:

1 ـ على رضى اللہ تعالى عنہ نے ايك ايسى عورت كے متعلق فتوى ديا جس نے ايسے شخص سے شادى كى جس نے شرط ركھى تھى كہ بيوى مہر ادا كريگى اور عليحدگى اور طلاق كا مسئلہ بھى بيوى كے ہاتھ ميں ہوگا، اور جماع و مباشرت بھى بيوى كے ہاتھ ہوگى.

تو علي رضى اللہ تعالى اس شخص سے كہنے لگے: تو نے سنت كى مخالفت كى اور معاملہ كو اس كے سپرد كيا جو اس كى اہليت ہى نہيں ركھتا، آپ كو مہر ادا كرنا ہوگى، اور جماع و عليحدگى اور طلاق تيرے ہاتھ ميں ہے كيونكہ سنت يہى ہے.

اور ابن ابى شيبہ نے حسن سے بھى روايت كيا ہے كہ:

" عورتوں كا حق نہيں كہ وہ مردوں كو مہر ادا كرتى پھريں "

ديكھيں: مصنف ابن ابى شيبۃ ( 3 / 427 ).

2 ـ رابطہ عالم اسلامى كے ادارہ اسلامى فقہ اكيڈمى ( 15 / 10 / 1425 الموافق 28 / 11 / 2004 ) لڑكى والوں كا لڑكے كو رقم اور جہيز ادا كرنے كے فيصلہ ميں درج ہے:

و حدہ و الصلاۃ و السلام على من لا نبى بعدہ:

و بعد: اسلافى فقہ اكيڈمى نے عبد القادر ہندى كے ليٹر كا ترجمہ ديكھا جس ميں ان كا اپنے معاشرہ ميں لڑكى والوں كا لڑكے كو شادى كے بدلے رقم ادا كرنے والى رسم جہيز كے خلاف آواز اٹھانے كا ذكر كيا گيا ہے، وہ كہتے ہيں كہ انڈين مسلمان نكاح فارم ميں مہر لكھوا تو ديتے ہيں ليكن بيوى كو ادا كچھ نہيں كيا جاتا...

اس بارہ ميں اكيڈمى كے فيصلہ ميں درج ہے:

دوم:

اكيڈمى متنبہ كرتى ہے كہ اگرچہ يہ شادى اس اعتبار سے شرعى شادى كے مخالف ہے، ليكن يہ شادى صحيح ہے اور جمہور علماء كرام كے ہاں اسے معتبر شمار كيا جائيگا، صرف چند ايك علماء كرام نے اس شادى كو مہر نہ دينے كى شرط ہونے كى حالت ميں صحيح تسليم نہيں كيا.

ليكن ايسى شادى سے پيدا ہونے والى اولاد شرعى ہوگى اور وہ اپنے ماں باپ كى طرف منسوب كى جائيگى، علماء كرام كے اجماع كے مطابق يہ نسبت شرعى اور صحيح ہے، حتى كہ ان علماء كے ہاں بھى جو اس نكاح كو صحيح تسليم نہيں بھى كرتے وہ بھى اسے شرعى نسبت تسليم كرتے ہيں، انہوں نے اپنى كتابوں ميں بيان كيا ہے كہ مذكورہ شادى سے پيدا شدہ اولاد كو ان كے ماں باپ كى طرف منسوب كيا جائيگا.

سوم:

اكيڈمى يہ فيصلہ كرتى ہے كہ: يہ بہت برى عادت اور قبيح بدعت كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم اور علماء كے اجماع كے مخالف ہے، اور اسى طرح سب زمانوں ميں مسلمانوں كے عمل كے بھى خلاف ہے.

كتاب اللہ ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم عورتوں كو ان كے مہر راضى و خوشى ادا كرو النساء ( 4 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:

تم پر كوئى گناہ نہيں جب تم انہيں مہر ادا كر كے ان سے نكاح كر لو الممتحنۃ ( 10 ).

اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:

اس ليے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہيں ان كا مقرر كيا ہوا مہر ادا كر دو النساء ( 24 ).

اس كے علاوہ اور بہت سارى آيات ہيں، اور احاديث ميں بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فعل اور تقرير سے مہر كى مشروعيت ثابت ہے.

مسند احمد اور ابو داود ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر كوئى شخص كسى عورت كو دونوں ہاتھ بھر كر غلہ مہر ميں دے تو وہ عورت اس كے ليے حلال ہوگى.

يہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے، اور رہا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اپنا فعل تو صحيح مسلم وغيرہ دوسرى سنن كى كتابوں ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات كا مہر ساڑھے بارہ اوقيہ تھا "

يہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فعل تھا، اور آپ كى تقرير كى دليل صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ميں پائى جاتى ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى عنہ كو ديكھا كہ ان كے لباس پر زرد رنگ كے نشانات ديكھےتو فرمايا: يہ كيا ؟

توانہوں نے جواب ديا:ميں نے ايك عورت سے شادى كى ہے اور اسے كھجور كى ايك گٹھلي جتنا سونا مہر ديا ہے، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ ومسلم نے فرمايا: اللہ تعالى آپ كو بركت عطا فرمائے "

يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تقرير ہے كہ آپ نے عبد الرحمن كو مہر دينے پر روكا نہيں، جو كہ مسلمانوں كا اجماع اور الحمد للہ مسلمانوں كا ہر دور ميں ہر جگہ اس پر عمل بھى رہا ہے.

اس بنا پر اكيڈمى كا يہ فيصلہ ہے كہ: خاوند اپنى بيوى كو مہر ضرور ادا كريگا چاہے وہ فورى طور پر ادا كرے يا پھر بعد ميں، يا كچھ فورى طور پر ادا كر دے اور كچھ بعد ميں، ليكن بعد ميں حقيقتا ادا كرنا ہوگا يہ نہيں كہ لكھا دے اور ادائيگى كا ارادہ ہى نہ ہو، بلكہ جب آسانى ہو باقى مانندہ مہر ادا كرے.

مہر كے بغير خاوند كا اپنى بيوى سے شادى كرنا حرام ہے اكيڈمى يہ نصحيت كرتى ہے كہ مہر كم ركھنا اور اس ميں آسانى پيدا كرنا، اور نكاح ميں آسانى كرنا سنت ہے، اس ليے نكاح اور شادى كے اخراجات ميں كمى كرتے ہوئے زيادہ اخراجات سے احتراز كيا جائے اور فضول خرچى نہ كى جائے كيونكہ فضول خرچى ميں بہت سارے نقصانات ہيں.

چہارم:

اكيڈمى انڈيا وغيرہكے علماء كرام اور ذمہ داران حضرات سے اپيل كرتى ہے وہ اس غلط اور برى عادت كے خلاف جنگ كريں، اور اسے اپنے ملك سے ختم كرنے كى جدوجھد اور كوشش كريں كيونكہ يہ عادت آسمانى شريعت اور عقل سليم اور نظر مستقيم كى مخالف ہے.

پنجم:

يہ برى عادت شريعت مطہرہ كے مخالف ہونے كے ساتھ ساتھ عورتوں كے ليے بھى واضح نقصاندہ ہے، اس عادت كے ہوتے ہوئے تو نوجوان صرف اسى لڑكى سے شادى كريں گے جس كے گھر والے يا پھر لڑكى انہيں مہر ادا كريگى اور صرف مالدار لڑكيوں سے شادى كريں جس كے نتيجہ ميں غريب اور مسكين لڑكياں بغير شادى كے رہ جائيں گى، جس كے نقصانات كسى پر مخفى نہيں ہيں.

اس طرح تو شادى مالى لالچ اور غرض بن كر رہ جائيگى اور اچھى اور دين والى لڑكى اور لڑكا اختيار كرنے كى بنياد پر قائم نہيں رہے گى، جيسا كہ آج يورپى ممالك ميں ديكھا جا رہا ہے غريب لڑكى اپنى جوانى مال كمانے ميں ضائع كر ديتى ہے تا كہ وہ مال جمع كر كے مردوں كو اپنى طرف راغب كر كے شادى كر سكے.

ليكن دين اسلام نے تو عورت كو عزت و تكريم سے نوازا اور اسے گھر ميں ٹك كر رہنے كاحكم ديا ہے كہ اس كے سارے اخراجات اور نان و نفقہ خاوند كےذمہ واجب كيا ہے، جو شخص عورت سے شادى كرنے كى رغبت ركھتا ہو وہ عورت كو مہر بھى ادا كريگا اور پھر اس كےسارے اخراجات اور رہائش وغيرہ بھى مہيا كرنے كا پابند ہے.

اس طرح غريب و مسكين لڑكيوں كى شادى كا دروازہ بھى كھل گيا كيونكہ وہ تھوڑا سا مہر بھى قبول كر ليتى ہيں اس طرح فقير اور غريب مردوں كے ليے بھى شادى ميں آسانى ہو جائيگى اور عورت سے شادى كرنے ميں كاميابى حاصل كريں گے.

اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق نصيب كرنے والا ہے " انتہى

3 ـانڈين اسلامى فقہ اكيڈمى كے فيصلہ نمبر ( 56 ) ( 5 / 13 ) ميں اسى برى عادت كے متعلق درج ذيل بيان آيا ہے:

" علماء ہند اور عرب ممالك كے علماء جو ندوہ كے اجلاس ميں شريك ہوئے وہ محسوس كرتے ہيں كہ شادى كے وقت عقد نكاح ميں جو مال بيوى يا اس كے اولياء سے طلب كرتا ہے اور يہاں يہ رواج بن چكا ہے اور خطرناك صورت حال اختيار كر چكا ہے كہ اس وقت نكاح بہت مشكل بن چكا ہے حالانكہ شريعت اسلاميہ نے تو نكاح ميں آسانى پيدا كى تھى اور دين اسلام ميں سب سے عظيم بابركت بنايا تھا جسے آج بہت مشكل بنا ديا گيا ہے جسے حاصل كرنا جوئے شير لانے كے مترادف ہے.

اس طرح بہت سارى بالغ لڑكياں جہيز نہ ہونے كے سبب شادى كے بغير جوانى گزار ديتى ہيں، جس كے معاشرے ميں بہت برے نتائج پيدا ہو رہے ہيں اور اخلاق بگاڑ پيدا ہو رہا ہے جسے شمار ہى نہيں كيا جا سكتا، ان نتائج كو ديكھتے ہوئے ندوہ درج ذيل فيصلہ كرتا ہے:

اول:

نكاح ايك انسانى ضرورت ہے، اور دين اسلام نے اسے آسان بنايا اور نكاح كرنے كى رغبت دلائى ہے، ليكن بہت سارے لوگوں نے شريعت اسلاميہ كى مخالفت كرتے ہوئے جہيز اور اسراف و فضول خرچى كے ساتھ نكاح كو مشكل اور زيادہ اخراجات والا بنا كر ركھ ديا ہے جو كہ صريحا احكام اسلامى كى مخالفت ہے اور بہت بڑا گناہ ہے.

دوم:

اس وقت رائج جہيز قطعى طور پر حرام ہے، اور شريعت اسلاميہ ميں اس كى كوئى اجازت نہيں.

سوم:

دين اسلام نے نہ تو بيوى اور نہ ہى اس كے اولياء پر كوئى خرچ اور بوجھ ڈالا ہے كہ شادى كے وقت وہ خاوند كو كچھ ادا كرے، بلكہ بيوى كا مہر اور اس كا نان و نفقہ بھى خاوند كے ذمہ واجب كيا ہے، اس ليے كسى بھى قسم كا بيوى اور اس كے اولياء پر مالى بوجھ ڈالنا جائز نہيں.

چہارم:

مہر بيوى كا مالى حق ہے، اور خاوند كو جتنى جلد ہو سكے مہر كى ادائيگى كرنى چاہيے.

پنجم:

بيوى كو شادى كے وقت اس كے والدين اور رشتہ دار جو سامان اور اشياء ديتے ہيں يا خاوند كے رشتہ داروں كى جانب سے اسے جو تحفے تحائف ديے جاتے ہيں وہ خالص بيوى كا مالى حق اور مليكت ہيں، خاوند يا اس كے گھر والوں كے ليے اسے اپنى ملكيت ميں لينا يا واپس لے لينے يا اسے استعمال كرنے كا كوئى حق نہيں، وہ بيوى كى مكمل رضامندى كے بغير اسے ميں كوئى تصرف نہيں كر سكتے " انتہى

آپ اس كى تفصيل درج ذيل لنك ميں ديكھ سكتے ہيں:

http://ifa-india.org/arabic/qararat.html

حاصل يہ ہوا كہ: دين اسلام ميں حرام ہے كہ خاوند اپنى بيوى سے مہر كى ادائيگى كا مطالبہ كرے... ليكن اگر آپ كے ليے اس كے بغير اپنى بہن كى شادى كرنا ممكن نہ ہو تو آپ اس پر مجبور ہيں، ان شاء اللہ اس صورت ميں آپ پر كوئى گناہ نہيں ہوگا.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كو اچھى اور بہتر طرح دين كى طرف واپس لائے.

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب