اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

نئى مسلمان عورت كا شادى ميں پيدا ہونے والے اشكالات كے متعلق سوال

سوال

ميں نہيں جانتى كہ آيا ميرى شادى صحيح تھى يا نہيں شادى درج ذيل طريقہ سے ہوئى:
ابتدائى طور پر عقد نكاح انگلش ميں تحرير كيا گيا اس وقت گواہ تو موجود تھے ليكن انہيں انگلش نہيں آتى تھى، ميں عقد نكاح تحرير نہيں كر رہى تھى ليكن انہوں نے مجھے بتايا كہ گواہوں ميں ايك تو امام مسجد ہے دوسرا حافظ قرآن اور ان كا انگلش ميں بات نہ كرنا عقد نكاح صحيح ہونے ميں مانع نہيں. دوسرى بات يہ كہ مجھے مہر نہيں ديا گيا اور نہ ہى ميں مہر مؤخر پر متفق ہوئى ہوں.
تيسرى چيز يہ ہے كہ: شادى كى تقريب صحيح طريقہ سے ادا نہيں ہوئى، پھر سہاگ رات يہ انكشاف ہوا كہ ميرے خاوند كو تو جنسى ضعف كى شكايت ہے، جس كا معنى يہ ہوا كہ اس سے اولاد نہيں ہو سكتى، اور جنسى رغبت بھى بہت قليل ہے.
پھر يہى نہيں بلكہ شادى كے تيسرے روز ميرا خاوند تبليغى جماعت كے ساتھ چاليس روزہ چلہ كے ليے چلا گيا اور كچھ مال بھى ساتھ ليتا گيا... يعنى خاوند نئى نويلى دلہن كو چھوڑ كر د دن بعد چلہ كاٹنے چلا گيا ؟!
ميرے خيال ميں اس طرح كا خاوند ايك گھرانہ بنانے اور اس كا خيال ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتا.. اور اس كے ليے يہ كيسے جائز ہوا كہ وہ تبليغ كے ليے جائے اور ميرا مہر ادا كرنے كى بجائے مال و دولت بھى ساتھ لينا جائے ؟!
برائے مہربانى ميرى مدد فرمائيں، ميں ايك نئى مسلمان عورت ہوں، ميں نہيں جانتى كہ مجھ پر كيا كرنا واجب ہے ؟
نوٹ: ميرى شادى كرنے والا شخص ہى عقد نكاح تحرير كرنے والا تھا، جو كہ ميرے خاوند كا ايك دوست بھى ہے، جيسا كہ ميں بيان كر چكى ہوں ميں ايك نئى مسلمان ہوئى ہوں اور ميرے خاندان ميں كوئى شخص مسلمان نہيں، مجھے معلوم نہيں ہو رہا كہ ميں كيا كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو دين اسلام پر ثابت قدم ركھے، اور آپ كو صحيح راہ پر ركھے اور رشد و ہدايت سے نوازے.

ہم بھى آپ كے كفر كے ظلمات و اندھيروں سے نكل كر ايمان كے نور ميں داخل ہونے اور قبول اسلام كى خوشى و فرحت ميں آپ كے ساتھ شريك ہيں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

كہہ ديجئے كہ اللہ كے فضل اور اس كى رحمت سے ہى ہے تو وہ اس كے ساتھ خوش ہوں، يہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع كرتے ہيں يونس ( 58 ).

دوم:

نكاح ميں گواہ بنانا نكاح كى شروط ميں شامل ہے، اور اعلان نكاح گواہوں سے كافى ہو جاتا ہے؛ كيونكہ اعلان نكاح گواہ بنانے كے معانى ميں بلكہ اس سے زائد معانى ديتا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ اعلان نكاح سے نكاح صحيح ہوتا، چاہے اس ميں دو گواہ نہ بنائے جائيں " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 130 ).

مزيد تفصيل اور معلومات كے ليے آپ سوال نمبر ( 112112 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

سوم:

عربى زبان كے علاوہ دوسرى كسى بھى زبان ميں نكاح ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ گواہ وہ زبان جانتے ہوں، كيونكہ گواہ تو اس كى گواہى ديگا جو اس نے سنا ہے، لہذا اگر وہ اس زبان كو ہى نہيں سمجھتا تو اس كى گواہى صحيح نہيں ہوگى.

جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے كہ اعلان نكاح گواہوں سے كافى ہو جاتا ہے، اس ليے اگر نكاح كا اعلان كيا گيا اور مسلمانوں كے ايك گروہ كے ہاں اس نكاح كى شہرت ہوئى ہو تو يہ نكاح صحيح ہے.

چہارم:

اگر عقد نكاح ميں مہر مقرر نہيں كيا گيا اور نام نہيں ليا گيا تو بھى نكاح صحيح ہے، اس صورت ميں عورت كو مہر مثل ملےگا، يعنى اس طرح كى عورتوں جتنا مہر ملےگا.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" ہر نكاح ميں مہر واجب ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ان كے علاوہ تمہارے ليے حلال كى گئى ہيں، كہ اپنے مالوں كے بدلے طلب كرو .

يہاں حلت كو مہر كے ساتھ مقيد كيا گيا ہے؛ ليكن عقد نكاح ميں نكاح صحيح ہونے كے ليے مہر مقرر كرنا اور نام لينا شرط نہيں، اس ليے علماء كرام كا اتفاق ہے كہ مہر كا نام ليے بغير نكاح صحيح ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 39 / 151 ).

مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب كے علماء كرام كہتے ہيں:

" نكاح ميں مہر كا ذكر كرنا نكاح كے اركان ميں شامل نہيں ہوتا، اس ليے اگر كسى شخص نے عورت كے ساتھ مہر كا ذكر كيے بغير عقد نكاح كر ليا تو يہ عقد نكاح صحيح ہے، اور اس عورت كے ليے مہر مثل واجب ہوگا، اور مہر كى كم از كم مقدار كى كوئى حد نہيں؛ بلكہ ہر وہ چيز مہر بن سكتى ہے جو قيمت بن سكتى ہو، صحيح قول كے مطابق وہ مہر ركھنا جائز ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 53 ).

پنجم:

ولى كے بغير عورت كا نكاح صحيح نہيں ہوتا كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اگر ولى معدوم ہو يا وہ ولى بننے كى اہليت نہ ركھتا ہو تو پھر عورت كا ولى حكمران يا اس كا قائم مقام ہوگا، اور اگر يہ بھى معدوم ہو تو پھر عورت كا نكاح كسى اسلامك سينٹر كا رئيس يا امام مسجد يا كوئى عالم دين كريگا، اور اگر ان ميں سے كوئى نہ ملے تو پھر كوئى عادل مسلمان شخص عورت كى اجازت سے اس عورت كا نكاح كر سكتا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كسى كافر شخص كو مسلمان عورت پر كسى بھى حالت ميں ولايت حاصل نہيں، وہ اہل علم كے اجماع كے مطابق مسلمان عورت كا ولى نہيں بن سكتا " اتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 21 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" اگر عورت كے ليے ولى يا حكمران نہ پايا جاتا ہو تو امام احمد سے مروى روايت كے مطابق عورت كى اجازت سے ايك مسلمان شخص كريگا " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 14 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ليكن جس عورت كا ولى نہ ہو اگر اس بستى يا علاقے اور محلے ميں حكمران كا نائب ہو تو وہ اور بستى كا نمبردار اور بڑا اس كى شادى كريگا، اور اگر ان ميں امام جس كى بات مانى جاتى ہو وہاں پايا جائے تو عورت كى اجازت سے اس كى شادى كريگا " انتہى

الفتاوى الكبرى ( 5 / 451 ).

اور ايك مقام پر رقطراز ہيں:

" اگر عورت كا ولى بننے والا شخص نہ ملے تو ولايت اس شخص كى طرف منتقل ہو جائيگى جسے نكاح كے علاوہ باقى امور ميں ولايت ہو مثلا گاؤں كا نمبردار اور قافلے كا امير وغيرہ " انتہى

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 5 / 451 ).

مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب كے علماء كرام كا كہنا ہے:

" اگر عورت كا كوئى قريبى يا دور كا كوئى ولى مسلمان نہ ہو تو آپ كے مركز اسلامى كا رئيس اور چئرمين نكاح كى ذمہ دارى پورى كريگا؛ كيونكہ اس طرح كے لوگوں كا وہ والى كى جگہ ہوتا ہے.

اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كا كوئى ولى نہ ہو تو حكمران اس كا ولى ہو گا "

جہاں مسلمان قاضى اور جج نہ ہوں وہاں مركز اسلامى كا رئيس اور چئرمين سلطان اور والى كى جگہ ہو گا " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 3 / 387 ).

ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ آپ كا نكاح صحيح ہے؛ كيونكہ جس شخص نے آپ كا نكاح كيا ہے اگر آپ كا ولى نہيں تو اسے آپ پر ولايت حاصل ہوگى، ليكن بہتر و افضل تو يہى تھا كہ آپ كے شہر كے مركز اسلامى كا چئرمين آپ كا ولى بن كر نكاح كرتا.

مزيد تفصيلات كے ليے آپ سوال نمبر ( 48992 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

ششم:

تبليغى جماعت اسلامى جماعتوں ميں سے ايك جماعت ہے جس كى ميدان ميں اسلام كى دعوت دينے ميں بہت مشكور جہود ہيں، ليكن اس جماعت مؤسسين و افراد كے فكرى و عملى عقائد ميں بہت بڑى بڑى غلطياں ہيں جن كى بنا پر اس سے اجتناب كرنا ضرورى ہے، بلكہ شركيہ عقائد تك پائے جاتے ہيں، آپ ان كى تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 8674 ) اور ( 47431 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

خاوند كو شادى كے ابتدائى ايام ميں ہى آپ كو چھوڑ كر تبليغى جماعت كے ساتھ نہيں جانا چاہيے تھا.

ليكن آپ اپنے خاوند كے بارہ ميں حسن ظن ركھيں، شادى كے دو دن بعد ہى آپ كے خاوند كا ان كے ساتھ جانا اس كى بات كى دليل ہے كہ وہ دعوت الى اللہ كا بہت ہم و غم ركھنے والا شخص ہے.

ہفتم:

نكاح صحيح ہونے كے ليے شادى كى تقريب كرنا شرط نہيں، چاہے شادى كى تقريب صحيح شكل ميں ہوئى يا نہيں يہ نكاح كى صحت پر اثرانداز نہيں ہوگى، ليكن يہ ضرورى ہے كہ شادى كى تقريب ميں حرام اور غلط قسم كى اشياء مثلا گانا بجانا اور موسيقى اور مرد و عورت كااختلاط و بے پردگى نہيں ہونى چاہيے.

ہشتم:

آپ كا خاوند جنسى ضعف اور بيمارى كا شكار ہے، يا اس سے اولاد ہونے كا احتمال بہت ہى كمزور ہے، اس كا علاج يہ ہے كہ وہ كسى قابل اور تجربہ كار ڈاكٹر سے مشورہ كر كے علاج كرائے تا كہ اس بيمارى كا كوئى حل نكل سكے.

ہم آپ كو صبر و تحمل اور حكمت كى نصيحت كرتے ہوئے يہ كہيں گے كہ آپ كوئى آخرى فيصلہ كرنے سے قبل اچھى سوچيں كہ آپ اس طرح كے حالات ميں خاوند سے عليحدہ ہو جائيں تو كيا ہوگا، آپ كے ليے ان حالات ميں عليحدگى بہتر نہيں ہے.

اگر ممكن ہو سكے تو آپ امام مسجد كو درميان ميں ڈاليں جس نے آپ كا نكاح بھى كيا تھا، يا پھر اس كے علاوہ ثقہ اور قابل اعتماد مسلمان كے سامنے يہ مسئلہ ركھيں كہ وہ آپ كے خاوند كو سمجھائے كہ اس پر آپ كے ساتھ حسن معاشرت كرنى چاہيے، اور آپ كے حقوق كيا خيال كرنا چاہيے؛ يہ عليحدگى سے بہتر ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا كرتے ہيں كہ وہ آپ كو خير و بھلائى پر جمع ركھے اور آپ كے مابين اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب