الحمد للہ.
اول:
والدہ سے حسن سلوك اور بھائيوں كا خيال كرنے اور ان كے اخراجات برداشت كرنے پر ہم آپ كا شكريہ ادا كرتے ہيں اگر آپ اس ميں اچھى نيت ركھيں تو ان شاء اللہ آپ كو بہت عظيم اجروثواب حاصل ہوگا.
دوم:
والدين كے ليے حسب ضرورت اپنى اولاد كا مال لينا جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں بيٹے كو كوئى نقصان اور ضرر نہ ہوتا ہو، اور بيٹے كى ضرورت و مصلحت نہ جاتى رہے.
اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 9594 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
كيونكہ ابن ماجہ نے عمرو بن شعيب اپنے باپ اور دادا رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ:
" ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر عرض كرنے لگا:
" ميرے باپ نے ميرا مال لے ليا ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اور تيرا مال تو تيرے والد كا ہے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2292 ).
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا تمہارى اولاد تمہارى بہترين كمائى ہے، تم ان كے اموال ميں سے كھاؤ "
امام احمد رحمہ اللہ سے ايك ايسى عورت كے متعلق سوال كيا گيا جو اپنے بيٹے كا مال صدقہ كر ديا كرتى تھى تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمايا كہ اسے بيٹے كى اجازت سے صدقہ كرنا چاہيے "
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 45 / 203 ).
والدين كو يہ حق نہيں كہ ايك بيٹے مال لے كر كسى دوسرے بيٹے كو دے ديں.
اس بنا پر والدہ كو چاہيے تھا كہ جب وہ اپنے ضرورتمند بھائى يا اپنى محتاج بيٹى كو اپنے بيٹے كى رقم اور مال دينے لگى تھى تو بيٹے سے پوچھ ليتى، اور بيٹے كو چاہيے تھا كہ اجازت مانگنے كى صورت ميں وہ حسب استطاعت والدہ كو اجازت ديتا، كيونكہ والدہ كى ضرورت و رغبت بيٹے كے مال سے متعلق ہے، اور خاص كر جب يہ ضرورى حاجت كے متعلق ہو اور كسى رشتہ دار سے مخصوص ہو.
اور آپ كى بہن كے ليے تو اور بھى تاكيدى اور يقينى امر ہوگا كہ آپ نے اپنے بہن بھائيوں اور والدہ كے اخراجات كى ذمہ دارى لے ركھى ہے، يہ سب كچھ آپ كى جانب سے والدہ كے ساتھ حسن سلوك اور صلہ رحمى كى تكميل ہے، ہم اميد ركھتے ہيں كہ آپ بھى والدہ اور بہن بھائيوں سے صلہ رحمى كرنے والوں ميں سے ہيں.
آپ كا اپنى والدہ كو كہنا كہ: ميرے علم كے بغير ميرا مال صرف مت كرنا "
اس كلام ميں شدت اور سختى پائى جاتى ہے، كہ آپ نے والدہ كو سختى سے مخاطب كيا ہے، آپ كو چاہيے كہ آپ اس معاملہ پر متنبہ رہتے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
چنانچہ تم دونوں ( والدين ) كو اف بھى نہ كہو، اور ان كى ڈانٹ ڈپٹ مت كرو، بلكہ انہيں نرم اور اچھى بات كہو الاسراء ( 23 ).
سوم:
رہا مسئلہ اللہ كے ليے اخلاص نيت كا تو آپ كو معلوم ہونا چاہيے اس كے ليے مستقل طور پر نفس اور شيطان كے خلاف جدوجھد كى ضرورت ہے، كہ آپ جو بھى خرچ كرتے ہيں اس ميں اخلاص نيت كے ليے نفس اور شيطان كے خلاف جھاد جارى ركھيں، اور اس ميں اچھى ني تركھا كريں، اور آپ شيطانى اور نفسانى وسوسوں كى جانب التفات بھى نہ كريں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے اخلاص نيت اور وسوسوں كے علاج كے بارہ ميں دريافت كيا گيا تو كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" آپ اپنے آپ كو اللہ كا مطيع كرنے اور اپنے دل كى نيت خالص ركھنے كى كوشش كريں، اور اپنے عمل ميں اللہ سبحانہ و تعالى كى رضامندى كے حصول كا مقصد ركھيں كہ اللہ تعالى تمہيں اس كا اجروثواب عطا فرمائيگا، اور اللہ سبحانہ و تعالى سے دار آخرت كى اميد ركھتے ہوئے اپنے وسوسوں كو ترك كر ديں، اور شيطانى چال كو اپنے سے دور كريں، كيونكہ شيطان تو آپ كى راحت و سكون كو شكوك و شبھات سے بھرنا چاہتا ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 207 ).
واللہ اعلم .