الحمد للہ.
ہم اس ظالم كى جانب سے جو كچھ ہو رہا ہے اور آپ كے حقوق ميں جو كوتاہى كر رہا ہے اس پر افسوس كرتے ہيں اور آپ كى قدر كرتے ہوئے يہ كہتے ہيں كہ آپ كا خاوند آپ پر ظلم كر رہا ہے، ليكن اس كے ساتھ ساتھ ہم آپ كو كچھ تنبيہات كرنا چاہتے ہيں جن ميں آپ كے سوالات كا جواب بھى ہے:
اول:
آپ نے ہميں يہ كہا ہے كہ:
" آپ عيسائيوں كو كافر مت كہيں "
اس معاملہ ميں ہمارا كوئى دخل نہيں، اور نہ ہى ہم نے يہود و نصارى اور مجوسيوں كو كافر قرار ديا ہے، بلكہ ان سب پر تو اللہ سبحانہ و تعالى نے كافر ہونے كا حكم لگايا ہے اور اسى اللہ سبحانہ و تعالى نے بتايا ہے كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى بعثت كے بعد دين اسلام كے علاوہ كوئى اور دين قبول نہيں كيا جائيگا، كيونكہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم سب زمين والوں كى جانب رسول بنا كر مبعوث كيے گئے ہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى بھى دين اسلام كے علاوہ كوئى اور دين تلاش كريگا تو اس كا وہ دين قابل قبول نہيں ہے، اور وہ آخرت ميں نقصان اٹھانے والوں ميں سے ہوگا آل عمران ( 85 ).
اور ايك مقام پر ارشاد ربانى اس طرح ہے:
يقينا ان لوگوں نے كفر كا ارتكاب كيا جنہوں نے كہا كہ اللہ تعالى تينوں ميں تيسرا ہے، حالانكہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود نہيں، اور اگر وہ اپنے اس قول سے باز نہ آئے تو ان ميں سے كافروں كو المناك عذاب ديا جائيگا.
يہ لوگ اللہ تعالى كى طرف جھكتے كيوں نہيں اور استغفار كيوں نہيں كرتے ؟ اللہ تعالى تو بہت ہى بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے
مسيح ابن مريم سوائے پيغمبر ہونے كے كچھ بھى نہيں، اس سے پہلے بھى بہت سے پيغمبر ہو چكے ہيں، ان كى والدہ ايك راست باز خاتون تھيں، دونوں ماں بيٹے كھانا كھايا كرتے تھے، آپ ديكھيئے كہ كس طرح ہم ان كے سامنے دليليں ركھتے ہيں پھر غور كيجئيے كہ كس طرح وہ پھرے جاتے ہيں المآئدۃ ( 73 - 75 ).
اللہ كى بندى اگر ہم كوئى ايسى بات اور كلام كريں جسے آپ سننا پسند نہ كرتى ہوں تو پھر ہميں معذور سمجھيں كيونكہ يہ بات ہم اپنى جانب سے نہيں كرتے.
ہم يہ بات تاكيد سے كرتے ہيں كہ آپ ہميں اپنا شكوى بيان كريں اور ہم سے سوال كريں اور ہمارى يہ شان اور حالت نہيں كہ ہم آپ كو كہيں كہ آپ كافرہ عورت ہيں؛
كيونكہ اس بات كا اس جھگڑے اور سوال و شكايت كے ساتھ كوئى تعلق نہيں، اور جس كے بارہ ميں آپ نے دريافت كيا ہے اس كا اللہ تعالى كے بيان كردہ حكم سے كوئى تعلق ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو تم اللہ كا خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستى اور انصاف كے ساتھ گواہى دينے والے بن جاؤ، كسى قوم كى عداوت كى عداوت تمہيں خلاف عدل پر آمادہ نہ كر دے، عدل كيا كرو جو پرہيزگارى كے زيادہ قريب ہے، اور اللہ تعالى سے ڈرتے رہو، يقينا جانو اللہ تعالى تمہارے اعمال سے باخبر ہے المآئدۃ ( 8 ).
دوم:
ہم اس سے انكار نہيں كرتے كہ كچھ غير مسلم ايسے بھى ہيں جو بہت سارے مسلمانوں سے اخلاقى طور پر اچھے اور بہتر ہيں، ليكن اس كا يہ معنى نہيں كہ وہ لوگ دينى طور پر بھى مسلمانوں سے بہتر اور اچھے بن گئے ہيں!
اسى طرح ہم ان ظلم و ستم كرنے والے برائى اور شر كو چاہنے والے مسلمانوں كو بھى دعوت ديتے ہيں كہ وہ اپنا اخلاق بہتر بنائيں تا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم پر عمل كر سكيں كيونكہ اللہ كا حكم يہى ہے.
اور اسى طرح ہم اچھے اخلاق كا مظاہرہ كرنے والے افراد سے بھى كہتے ہيں كہ وہ دين ميں بہترى پيدا كر كے يعنى دين اسلام قبول كركے اخلاق حسنہ ميں جو كمى ہے وہ پورى كر ليں.
آپ يہ علم ميں ركھيں كہ غير مسلموں ميں يہ لوگ جو اخلاق حسنہ كے مالك ہيں افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ انہوں نے اللہ رب العالمين كے ساتھ تو اس اچھے اخلاق كا مظاہر نہيں كيا!
كيونكہ جب وہ اللہ تعالى كى اولاد ہونے كا دعوى كرتے ہيں تو حقيقت ميں اللہ تعالى پر سب و شتم كرتے ہيں!
يا پھر جب يہ دعوى كرتے ہيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى كے ساتھ كوئى اور الہ بھى شريك ہے، حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى ت ان كے قول سے بہت ہى بلند و بالا ہے.
اس ليے جو بھى يہ كہتا ہے كہ عيسى ہى اللہ ہے، يا پھر وہ اللہ كا بيٹا ہے تو اس نے اللہ سبحانہ و تعالى پر سب و شتم كيا اور يہى نہيں بلكہ يہى سب سے بڑى سب و شتم ہے.
اللہ خالق كے ساتھ يہ بداخلاقى كرتے ہوئے اسے مخلوق كے ساتھ اخلاق سے پيش آنے كا فائدہ كيا ہوگا ؟!
اس ليے ہم آپ ـ سچائى كے ساتھ ـ كو دعوت ديتے ہيں كہ آپ ذرا اپنے عقيدہ كے بارہ ميں غور كريں اور يہ گواہى ديتے ہوئے اعلان كريں كہ اللہ سبحانہ و تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں وہى الہ اور رب ہے اس كے علاوہ كوئى اور رب اور الہ و معبود نہيں، آپ توحيد كا اعلان كرتے ہوئے محمد صلصى اللہ عليہ وسلم كى رسالت كا بھى اقرار كر ليں تو اس طرح آپ دونوں خير و بھلائيوں كو جمع كر ليں گى.
سوم:
اپنے خاوند سے جو ظلم و ستم كى شكار ہيں وہ اس ليے نہيں كہ وہ شخص مسلمان ہے؛ كيونكہ اسلام تو مسلمانوں كو اپنى بيويوں كے ساتھ حسن معاشرت كا حكم ديتا ہے.
اور اس ليے بھى نہيں كہ آپ غير مسلم ہيں، كيونكہ دين اسلام مسلمان يا پھر اہل كتاب ميں سے بيوى كے ساتھ حسن معاشرت ميں كوئى فرق نہيں كرتا.
بلكہ كتابى عورت كے ساتھ بالاولى حسن معاشرت كرنى چاہيے تا كہ اس كے ليے اسلامى اخلاق واضح كيا جا سكے اور اسى سبب سے اللہ تعالى اسے ہدايت عطا فرمائے اور وہ جہنم كے عذاب سے محفوظ ہو جائے.
آپ كے ساتھ خاوند جو كچھ كر رہا ہے وہ سب كچھ اپنے دين سے دورى كى بنا پر كر رہا ہے، كيونكہ آدمى جتنا اپنے دين پر عمل كرنے والا ہوگا اسى قدر اس كا اخلاق بھى بہتر ہوگا اور پھر اس كے نتيجہ ميں ہر حقدار كو اس كا حق بھى ادا كريگا، كاش وہ اپنے دين اسلام كى تطيبق كرتا اور اس كو اپنے اوپر لاگو كرتا تو آپ ديكھتيں كہ آپ كے ساتھ كس قدر رحمت و مودت اور محبت و پيار سے پيش آتا اور آپ كے ساتھ حسن معاشرت بھى كرتا، ليكن افسوس اس نے دين كو چھوڑ ركھا ہے صرف نام كا ہى مسلمان ہے.
چہارم:
خاوند كى جانب سے آپ كو جو تنگى اور ظلم كا سامنا كرنا پڑ رہا ہے اسى طرح كے ظلم و ستم كا شكار تو مسلمان بيوياں بھى ہيں! اور عيسائى بيوياں بھى ظلم و ستم كا شكار ہيں، يا جس دين پر بھى وہ عمل كرتى ہوں سب ہى ايسى ظلم وزيادتى كا شكار ہوتى ہيں، چاہے خاوند اور بيوى كا دين ايك ہى كيوں نہ ہو.
معاملہ يہ ہے كہ مسلمانوں كا اخلاق تو ايسا نہيں اور نہ ہى دين اسلام انہيں ايسا كرنے كا حكم ديتا ہے، بلكہ دين اسلام تو اس طرح كا ظلم و ستم قبول ہى نہيں كرتا، يہ تو صرف بنا پر ہے كہ وہ شخص بذاتہ اپنے دين اسلام پر عمل نہيں كرتا اور اس شخص ميں دينى طور پر خلل پايا جاتا ہے.
اور ہو سكتا ہے يہ خلل تو مرد كى اصل ميں ہو حتى كہ اصل ايمان ميں ہى خلل ہو اللہ اس سے محفوظ ركھے كيونكہ جو دين اسلام پر ايمان ركھتا ہے وہ ايسا عمل نہيں كرتا.
پنجم:
جب ثابت ہو جائے كہ آپ كا خاوند انبياء اور دين اسلام پر سب و شتم كرتا ہے تو وہ مرتد ہے، يہى وہ بات ہے جو ہم اوپر كى سطور ميں آپ سے كہہ چكے ہيں كہ بہت سارے لوگوں كے اصل ايمان ميں خلل ہوتا ہے، اور ان كا دين اسلام كے دائرہ ميں داخل ہونا ہى يقينى نہيں ہوتا؛ اللہ تعالى اس سے محفوظ ركھے، تو اس صورت ميں اس كا نكاح فسخ ہو جائيگا.
اور اس ميں طلاق كى ان قسموں كو مدنظر نہيں ركھا جائيگا جو اس نے آپ كے ليے قسميں كھا ركھى ہيں، كيونكہ اس شخص كا مرتد ہو جانا ہى نكاح كو فسخ كر ديتا ہے، چاہے بيوى مسلمان ہو يا پھر اہل كتاب سے تعلق ركھتى ہو، اسے چاہيے كہ وہ جس مسلك اور مذہب حنفى كى طرف منسوب ہے اس سلسلہ ميں وہ حنفى علماء كے اقوال و فتاوى جات كا ہى مطالعہ كر لے، بلكہ ہم تو يہ كہيں گے كہ وہ حنفى مذہب كى طرف منسوب ہونے ميں بھى جھوٹا ہے.
حنفى عالم دين امام سرخسى رحمہ اللہ كا قول ہے:
" ہمارے نزديك تو جب مسلمان شخص مرتد ہو جائے تو اس كى بيوى اس سے بائن ہو كر جدا ہو جاتى ہے، چاہے وہ مسلمان ہو يا پھر اہل كتاب سے تعلق ركھتى ہو، چاہے بيوى سے دخول كر چكا ہو يا دخول نہ كيا ہو " انتہى
ديكھيں: المبسوط ( 5 / 49 ).
اصلا يہ حكم كسى فيصلہ كا محتاج نہيں، بلكہ آپ پورے مہر كى حقدار ہيں.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" احناف علماء كا كہنا ہے كہ:
جب مسلمان خاوند يا بيوى ميں سے كوئى ايك مرتد ہو جائے تو اس كى بيوى اس سے بائن ہو جائيگى، چاہے وہ مسلمان ہو يا اہل كتاب سے تعلق ركھتى ہو، اس سے دخول كيا ہو يا دخول نہ كيا ہو؛ كيونكہ مرتد ہو جانا نكاح كے منافى ہے اور يہ فورى طور پر فسخ نكاح كا باعث بنےگا، اس ميں طلاق كى كوئى ضرورت نہيں، اور نہ ہى يہ كسى فيصلہ و عدالت كا محتاج ہے.
اور اگر ـ دخول كے بعد ـ مرتد ہو جائے تو پھر بيوى كو پورا مہر ملےگا " انتہى مختصرا
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 198 ).
ششم:
ليكن اگر صورت حال يہ ہے جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے كہ اس نے بيس بار آپ كو طلاق دى ہے، تو يہ ايك اور دليل ہے كہ وہ شخص اپنے دين كى كوئى پرواہ نہيں كرتا، اور اس كے نزديك دين اسلام كے احكام كى كوئى حرمت اور مقام و مرتبہ نہيں ہے، كيونكہ طلاق ميں تو صرف تين بار طلاق دينا ہى كافى تھا اس طرح آپ اس كے ليے حرام ہو جاتيں، اور تين طلاقوں كے بعد آپ كا اس كے ساتھ رہنا حرام ہے، بلكہ اس سے بھى قبل صرف اس كے مرتد ہو جانے كے باعث ہى ايسے شخص كے ساتھ رہنا حرام ہے، يا پھر تين بار طلاق دينے سے آپ دونوں كے مابين حرمت ثابت ہو جاتى.
اس ليے آپ كسى بھى طريقہ سے اس شخص سے چھٹكارا حاصل كريں، اس كے ليے يا تو آپ اپنا مقدامہ شرعى قاضى كے پاس لے جائيں، يا پھر كسى اسلامك سينٹر ميں، يا كسى اور اسلامى كميٹى كے سامنے اپنا معاملہ پيش كريں، اور اگر يہ ميسر نہ ہو تو پھر آپ قانونى اور سركارى عدالت ميں بھى اپنا مقدمہ پيش كر سكتى ہيں.
اہم بات يہ ہے كہ آپ يہ علم ميں ركھيں كہ خاوند كے اس برے معاملے اور سوء معاشرت ميں دين اسلام كوئى سبب نہيں، بلكہ دين اسلام نے تو آپ كے ساتھ عدل و انصاف سے كام ليا ہے، اور ديكھيں دين اسلام تو ايسے شخص پر مرتد ہونے كا حكم لگاتا ہے، اور اس طرح ايسے شخص كے ساتھ كيا ہوا نكاح فسخ ہو جائيگا اور آپ اس سے آزاد ہو جائينگى، اور ديكھيں پھر دين اسلام نے آپ كے ليے يہ حكم ديا ہے كہ اس صورت ميں خاوند آپ كو پورا مہر ادا كريگا.
اللہ كى بندى ذرا آپ اس موقف پر توغور كريں جو ہم آپ كے سامنے پيش كرنے جا رہے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور خيبر كے يہوديوں كے مابين معاملہ تھا جس كى بنا پر خيبر كى فصل كا نصف غلہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو حاصل ہونا تھا؛ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ايك صحابى عبد اللہ بن رواحہ رضى اللہ تعالى عنہ ہر سال خيبر والوں كے پاس جاتے اور وہاں كى فصل اور پھل وغيرہ كا اندازہ لگا كر آدھا دينے كا حكم لگاتے تو انہوں نے اس صحابى كو ايك سال اندازہ كى شدت ميں كمى كرنے كے ليے رشوت دينا چاہى تو صحابى رسول صلى اللہ عليہ وسلم عبد اللہ بن رواحہ نے كہا:
او اللہ كے دشمنوں تم مجھے حرام كھلانا چاہتے ہو؟! حالانكہ ميں تمہارے ہاں ايسے شخص كے پاس سے آيا ہوں جو سب لوگوں سے بہتر اور اچھا ہے يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس سے آيا ہوں، اور تم ميرے نزديك تو بندروں اور خنزيروں سے بھى بدتر ہو؛ ليكن ميرا تمہيں يہ ناپسند كرنا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ميرى محبت مجھے اس پر نہيں آمادہ نہيں كرتى كہ ميں تمہارے ساتھ عدل و انصاف سے كام نہ لوں اور تمہارے ساتھ بےانصافى كروں!!
وہ كہنے لگے: اسى كے ساتھ تو آسمان و زمين قائم ہے!!
اسے ابن حبان ( 11 / 607 ) اور بيہقى ( 6 / 114 ) نے روايت كيا ہے اور اس كى سند صحيح ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے دل كام كى طرف لگائے جسے وہ پسند كرتا اور جس پر وہ راضى ہوتا ہے، اور آپ كا سينہ دين اسلام كے ليے كھول دے، اور آپ كى مصيبت و تكليف كو ختم كر دے.
واللہ اعلم .