ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

میت کی وجہ سے آنکھیں نم ہو جائیں تو یہ جائز ہے جبکہ نوحہ کرنا حرام ہے

سوال

میت پر رونے کا کیا حکم ہے؟ اور اگر کچھ عورتوں کی جانب سے روتے ہوئے اپنے گال نوچنا اور کپڑے پھاڑنا بھی شامل ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

میت کی وجہ سے آنکھیں نم ہو جائیں تو یہ جائز ہے بشرطیکہ اس میں نوحہ اور گال نوچنا شامل نہ ہو؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے بیٹے کی وفات پر رو دئیے تھے، جیسے کہ صحیح بخاری: (1284) میں سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے کہ اچانک کوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک صاحبزادی کی جانب سے پیغام لے کر آیا کہ ان کی صاحبزادی کا بیٹا قریب المرگ ہے ۔۔۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے اور آپ کے ہمراہ سیدنا سعد بن عبادہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما بھی ہو لیے، تو قریب المرگ نواسہ آپ کو دیا گیا اور اس کا سانس اکھڑا ہوا تھا گویا کہ وہ مشکیزے میں ہو، [اس کیفیت کو دیکھ کر] آپ کی آنکھیں نم ہو گئیں، تو اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ! یہ کیا ہے؟ [یعنی آپ رو رہے ہیں؟] تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یہ ترس ہے جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کیا ہے، اور یقیناً اللہ تعالی بھی اپنے ترس کھانے والے بندوں پر ترس کھاتا ہے۔ )

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی رو دئیے اور آپ کے ارد گرد لوگ بھی رو دئیے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ میں اپنی والدہ کے لیے مغفرت طلب کروں تو مجھے اجازت نہیں دی گئی، پھر میں نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت طلب کی تو مجھے اللہ تعالی نے اجازت دے دی۔) مسلم: (976)

لیکن اگر رونے کے ساتھ ساتھ گال نوچنا، رخسار پیٹنا ، کپڑے پھاڑنا اور اللہ تعالی کے تقدیری فیصلوں پر اظہار ناراضگی بھی شامل ہو تو یہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (وہ ہم میں سے نہیں جو رخسار پیٹے، سینہ کوبی کرے اور جاہلیت والی آوازیں لگائے۔) بخاری: (1294)

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میت کا نام لے لے کر پکارنا، نوحہ کرنا، سینہ کوبی کرنا، رخسار پیٹنا، بال نوچنا، ہلاکت اور تباہی کی بد دعائیں کرنا تو یہ سب اعمال تمام فقہائے کرام کے مطابق حرام ہیں، جمہور اہل علم نے ان کے حرام ہونے کی صراحت کی ہے۔۔۔۔ جبکہ اہل علم کی ایک جماعت نے اس پر اجماع بھی نقل کیا ہے۔" ختم شد
"شرح المهذب" (5/281)

ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: { فإذا وجب فلا تبكين باكية } یعنی: جب قریب المرگ شخص فوت ہو جائے تو کوئی رونے والی مت روئے۔ اس کا مطلب -واللہ اعلم-یہ ہے کہ: میت کے مرنے کے بعد چیخ و پکار اور نوحہ جائز نہیں ہے تاہم آنکھوں سے آنسو جاری ہو جانا، دل کا کبیدہ خاطر ہونا تو سنت سے اس کا جواز ثابت ہے اور یہ موقف علمائے کرام کی ایک جماعت کا ہے۔" ختم شد
" الاستذكار " (3/67)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسے معاملات میں مسلمانوں پر صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھنا واجب ہوتا ہے۔ نوحہ کناں نہ ہوں، کپڑے مت پھاڑیں، رخسار مت پیٹیں اور اسی طرح کے دیگر امور مت کریں اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (وہ ہم میں سے نہیں جو رخسار پیٹے، سینہ چاک کرے، اور جاہلیت کی آوازیں لگائے۔) اسی طرح صحیح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (میری امت میں چار جاہلیت کے کام ہیں جنہیں یہ نہیں چھوڑیں گے: ذاتی خوبیوں پر فخر کرنا، دوسروں کے نسب پر انگلیاں اٹھانا، تاروں سے بارش طلب کرنا، اور نوحہ کرنا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (نوحہ گر خاتون اگر اپنی وفات سے پہلے توبہ نہ کرے تو اسے قیامت کے دن اٹھایا جائے گا اس پر تارکول کی چھوٹی قمیص ہو گی اور خارش کی لمبی قمیص ہو گی) اس روایت کو امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں بیان کیا ہے۔ نوحہ : یہ ہے کہ میت پر بلند آواز سے بین کرنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (میں صالقہ، حالقہ اور شاقہ سے بری الذمہ ہوں) حدیث میں مذکور: حالقہ کا مطلب ہے: جو مصیبت آنے پر اپنے بال نوچے یا منڈوا دے۔ جبکہ شاقہ : ایسی خاتون جو مصیبت آنے پر اپنا گریبان چاک کرے ۔ اور صالقہ: ایسی خاتون جو مصیبت آنے پر چیخ و پکار کرے۔ یہ سب امور جزع فزع سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی کام کسی بھی مرد یا عورت کے لیے کرنا جائز نہیں ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (13/414)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب