اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

تين بيويوں والا شخص پورے رمضان كا اعتكاف كرنا چاہتا ہے اور بيوياں اسے اپنے ساتھ چاہتى ہيں

سوال

ميرا سوال اعتكاف كے بارہ ميں ہے، كيونكہ ميرا خاوند سارے رمضان المبارك كے اعتكاف كى نيت ركھتا ہے، حالانكہ ہميں اس كى ضرورت ہے، كيونكہ ميرے خاوند كى تين بيوياں ہيں ان ميں سے ايك بيوى كو حمل كا آخرى مہينہ ہے، اور جہاں خاوند رہتا ہے وہ اس علاقے كى نہيں، خاوند كے كئى بچے بھى ہيں ہم نہيں چاہتيں كہ وہ مہينہ كے شروع ميں ہى چلا جائے.

ميرا سوال يہ ہے كہ آيا اسے ہمارى رضامندى كے بغير جانےكا حق حاصل ہے، حالانكہ اس كا ہمارے ساتھ رہنا ضرورى ہے ؟

برائے مہربانى جواب دے كر عند اللہ ماجور ہوں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اعتكاف ايك ايسى عظيم عبادت ہے جس ميں آدمى دنياوى مشغولات چھوڑ كر اپنے آپ نفس كا محاسبہ اور اپنے پروردگار اللہ رب العزت كى عبادت ميں مشغول رہتا ہے، اور جس چيز كو وہ پہلے بجا لانے سے قاصر تھا اس كے ليے اب فارغ ہو گا، اور جس ميں كوتاہى برتتا تھا اس كے ليے يہ مستحق وقت ہے.

اور علماء كرام كے ہاں بالاتفاق اعتكاف كرنا سنت ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ” فتح البارى ” ميں امام احمد رحمہ اللہ سے نقل كيا ہے كہ:

” ميرے علم كے مطابق تو اس كے مسنون ہونے ميں علماء اكرام كے ہاں كوئى اختلاف نہيں ”

ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 272 ).

ليكن اس عبادت كے ليے كسى شرعى واجب ميں كوتاہى كرنا جائز نہيں كہ شرعى واجب ميں كوتاہى كر كے اس عبادت كو بجا لايا جائے، مثلا اہل و عيال كى ديكھ بھال اور انكے حقوق ميں كوتاہى كرتے ہوئے اعتكاف كيا جائے.

اس شخص كو چاہيے كہ وہ تھوڑے سے دن اعتكاف كرے اور واپس گھر آ جائے تا كہ اللہ كى جانب سے واجب كردہ امور كو سرانجام دے، اور پھر نئے سرے سے اعتكاف كر لے، اس طرح وہ شرعى مخالفت سے بھى بچ جائيگا، اور كوئى اسے ملامت بھى نہيں كريگا.

شيخ عبد اللہ بن جبرين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اعتكاف كى زيادہ سے زيادہ اور كم از كم مدت كتنى ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

” اعتكاف كى زيادہ سے زيادہ حد مقرر نہيں ہے، ليكن يہ ہے كہ جب بندے كے اہل و عيال كے حقوق ضائع ہوتے ہوں اور وہ ان كى ديكھ بھال نہ كر سكے تو طويل عرصہ كا اعتكاف كرنا مكروہ ہے، حديث ميں وارد ہے كہ:

” آدمى كے گنہگار ہونے كے ليے يہى كافى ہے كہ وہ اپنى عيالدارى ميں موجود افراد كو ضائع كر دے ”

اس ليے جو طويل عرصہ تك اعتكاف كريگا تو لازمى طور پر ترك معاش كا مرتكب ہوگا، اور كسى دوسرے كو اپنے اہل و عيال پر خرچ كرنے اور ديكھ بھال كا كہےگا، اور اس كے ليے مسجد ميں كھانا وغيرہ لانے كى مشقت بھى ہوگى ”

ديكھيں: حوار فى الاعتكاف سوال نمبر ( 2 ).

اور شيخ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال بھى دريافت كيا گيا:

اگر كوئى شخص اعتكاف كرنا چاہے ليكن وہ اپنے گھر والوں كا ذمہ دار اور ولى بھى ہو اس كے علاوہ كوئى اور ان كى ضروريات پورى كرنے والا نہ ہو تو اس كے ليے افضل كيا ہے آيا وہ اپنے گھر والوں كى ديكھ بھال كرے يا آخرى عشرہ كا مسجد ميں اعتكاف كرے ؟

ہمارا اختيار تو يہى ہے كہ وہ اپنے اہل و عيال كى ضروريات كا خيال كرے اور ان كى ديكھ بھال اور خدمت كرے اور محرم بن كر ان كے ساتھ انس و محبت سے رہے اور ان كے گھر اور ان كے نفس كى حفاظت كرے، يا پھر ان كے كھانے پينے كے ليے كمائى كرے.

كيونكہ اس شخص كا اعتكاف كرنا اور اہل و عيال كو بغير ولى كے چھوڑ دينا كہ وہ چوروں اور فسادى قسم كے لوگوں كے ہتھے چڑھ جائيں، يا پھر ان كى گزران زندگى معطل ہو كر رہ جائے، يا پھر انہيں بازار سے ضروريات زندگى خود لانے تكليف اٹھانى پڑے، يا وہ اپنى ضروريات كى اشياء كسى دوسرے سے منگوا كر اپنے اوپر احسان مول ليں جسے وہ برداشت نہ كر سكتے ہوں.

امام مسلم رحمہ اللہ عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” آدمى كے گناہ كے ليے يہى كافى ہے كہ وہ اپنى عيالدارى ميں موجود افراد كو ضائع كر دے ”

اس حديث ميں اہل و عيال پر خرچ نہ كرنا بھى داخل ہوتا ہے، اور اسى طرح استطاعت ہونے كے باوجود بغير كمائى كے گھر والوں كو ويسے ہى چھوڑ دينا بھى شامل ہوتا ہے.

اس ليے اگر تو رشتہ داروں ميں كوئى ايسا شخص ہو جو ان كى ضروريات كا خيال كرے تو اس كے ليے اعتكاف جائز ہو گا، بلكہ مستحب ہے؛ كيونكہ كوئى ايسا سبب نہيں جو اسے مشغول كر دے ”

ديكھيں: حوار فى الاعتكاف سوال نمبر ( 11 ).

اور اگر آپ مكمل تفصيلى مطالعہ كرنا چاہيں تو درج ذيل لنك ديكھ سكتے ہيں:

” كچھ لوگ دعوت و تبليغ يا تعليم كى حجت و دليل دے كر اپنے گھر والوں كى ديكھ بھال نہيں كرتے بلكہ گھر سے دور تبليغ پر نكل جاتے ہيں ان كا يہ عمل غلط ہے، ہم اس كا تفصيل كے ساتھ سوال نمبر (3043 ) اور (6913 ) اور (22481 ) اور (110591 ) كے جوابات ميں ذكر كر چكے ہيں كہ ايسا كرنا صحيح نہيں، اور نہ ہى ان كے ليے يہ عذر بن سكتا ہے كہ وہ اس واجب كردہ عمل ميں كوتاہى كرتے ہوئے تبليغ ميں لگ جائيں، آپ ان سوالات كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب