اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

قنوت وتر کی دعا میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان ہوتے وقت ہاتھ اٹھاسکتے ہیں یا صرف اللہ سے دعا مانگتے وقت ہاتھ اٹھائےجائیں؟

156400

تاریخ اشاعت : 17-04-2015

مشاہدات : 23244

سوال

سوال: ہم کچھ لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ دعائے قنوت کی ابتدا یعنی اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے وقت ہاتھ نہیں اٹھاتے، جب امام دعا مانگنا شروع کرے تو ہاتھ اٹھاتے ہیں، کیا اس بارے میں کوئی دلیل ملتی ہے؟ یا صحیح یہی ہے کہ ابتدائے دعا سے ہی ہاتھ اٹھائے جائیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

کچھ اہل ِعلم  وتروں میں دعا ئے قنوت   کرنا منع قرار دیتے ہے، جبکہ صحیح بات یہی ہے کہ وتروں میں قنوت ثابت ہے؛  کیونکہ جلیل القدر صحابہ کرام رمضان میں  ایسا کیا کرتے تھے، بلکہ غیر رمضان میں بھی انہوں نے وتر میں قنوت کی ہے۔

محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسود  رحمہ اللہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ چھ ماہ رہا، آپ وتروں میں قنوت کرتے تھے۔
اسی طرح عبد اللہ بن مسعود  وتروں  میں سارا سال قنوت کرتے۔
اور علی رضی اللہ عنہ  پورے رمضان میں قنوت کرتے، اور غیر رمضان میں وتروں میں قنوت کرتے تھے۔"
" مختصر قيام الليل ورمضان والوتر " ( ص 314 )

یہی موقف علمائے دائمی فتوی کمیٹی، اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا ہے، جیسے کہ ہم نے انکا موقف سوال نمبر: (12311) اور (8594) کے جواب میں ذکر کیا ہے۔

دوم:
ظاہر یہی ہے کہ دعا کیلئے ہاتھ قنوت وتر کی ابتدا سے ہی اٹھائے جائیں گے، اور دعا کی ابتدا ثنائے الہی سے کرنا سنت ہے، ہمیں ثنائے الہی کے وقت ہاتھ نہ اٹھا نے یا دعا میں صرف مانگنے کے وقت  ہاتھ اٹھانے  کی کوئی توجیہ نہیں ملی، لہذا  ہمیں دعا میں اللہ کی حمد و تسبیح بیان کرنے اوراُس وقت ہاتھ اٹھانے میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا،بلکہ درج ذیل تین وجوہات کی بنا پر اس کے جائز ہونے  کی دلیل لی جاسکتی ہے:

پہلی وجہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے فقیہ ترین صحابہ کرام سے  دعا میں ثنائے الہی  کے وقت ہاتھ اٹھانا صراحت کیساتھ ثابت ہے:

1- عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اپنے تیروں سے مدینہ میں تیر اندازی کر رہا تھا،اچانک  سورج گرہن ہو گیا، میں نے اپنے تیروں کو پھینکا، اور کہا: "اللہ کی قسم آج  میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سورج گرہن کے موقع پر  کیے جانے والے  اعمال ضرور دیکھوں گا" عبد الرحمن بن سمرہ کہتے ہیں: میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا تو آپ نماز میں ہاتھ اٹھائے کھڑے تھے، اور تسبیح ،تحمید، تہلیل ، تکبیر، اور دعائیں کر رہے تھے، آپ نے یہ عمل سورج صاف ہونے تک جاری رکھا" مسلم ( 913 )

2- سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بنی عمرو بن عوف میں صلح کروانے کیلئے گئے  ہوئےتھے ، تو نماز کا وقت ہوگیا، چنانچہ مؤذن نے ابو بکر رضی اللہ عنہ  کو اطلاع دی، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ  نے لوگوں جمع کرنے کا حکم دیا، اور ابو بکر نے انکی امامت  کے فرائض سر انجام دیے، اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم  آ گئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے پہلی صف میں کھڑے ہوگئے، لوگوں نے  ابو بکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی آمدسے متنبہ کرنے کیلئے  ہاتھ پر ہاتھ مارنا شروع کیے[تالیاں]، لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ جب نماز میں ہوتے تو ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے، جب لوگوں نے [تالیاں] زیادہ کیں تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کو محسوس ہوا کہ لوگوں کو نماز میں کوئی مسئلہ درپیش ہے، چنانچہ جب انہوں نے جھانکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  انکے پیچھے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اشارہ سے سمجھایاکہ:  اپنے عمل پر  جاری رہو،  تو ابو بکر نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کیاس اجازت مرحمت فرمانے پر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔۔۔"
امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے اپنی سنن نسائی : (1183) میں روایت کیا ہے، اور البانی نے اسے "صحیح سنن نسائی" میں صحیح قرار دیا ہے۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے  اس حدیث پر عنوان قائم کیا ہےکہ : "یہ باب ہے نماز میں اللہ کی حمد و ثنا اور ہاتھوں کو اٹھانے کے بارے میں"
شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں  مصنف [امام نسائی] کے دیے ہوئے عنوان کے مطابق یہ دلیل ملتی  ہے کہ نماز کے دوران حمد و ثنا  اور ہاتھوں کو اٹھانا جائز  ہے"
" شرح سنن نسائی " ( کیسٹ نمبر: 239 )

دوسری وجہ:
صحیح احادیث میں ایسی دعائیں موجود ہیں جن میں اللہ تعالی سے مانگا نہیں گیا، بلکہ ان دعاؤں کے الفاظ میں ثنائے الہی اور ذکر ہے، اور اگر ان دعاؤں کی حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ اپنی ماہیت میں دعا کا درجہ ہی رکھتی ہیں، ایسی کچھ دعائیں  درج ذیل ہیں:

الف: جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:  (افضل ذکر: "لا الہ الا اللہ "ہے، اور افضل دعا: "الحمد للہ" ہے)
ترمذی: (3383) نے روایت کیا ہے، اور اسے حسن قرار دیا ہے، ابن ماجہ: (3800) اور البانی نے بھی اسے "صحیح ترمذی" میں حسن کہا ہے۔

ابن عبد البر رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں:
"افضل دعا: "الحمد للہ" ہے، اس لیے کہ اہلِ علم کے ہاں ذکر سراسر دعا ہی  ہے"
"التمہيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد " ( 6 / 43 )

جبکہ شخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حمدِ باری تعالی  دعا کو بھی متضمن ہے، جیسے کہ [گزشتہ]حدیث جابر میں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مانگنے والا اگر اللہ کی ثنا بیان کرے جس میں مطلوبہ چیز کا اشارہ بھی ہو تو یہ واضح لفظوں میں مانگنے سے زیادہ اثر رکھتی ہے، جیسے کہ کسی نے کہا ہے کہ:
جب کسی دن تمہاری کوئی تعریف کردے، تو اسے ثناخوانی کے بعد مانگنے کی ضرورت نہیں"
" مجموع فتاوى ابن تیمیہ" ( 22 / 381 ، 382 )

ب: ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  تکلیف کے وقت فرمایا کرتے تھے: ("لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ"[اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہی عظمت والا، اور بردباری والا ہے،  اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، وہی آسمانوں اور زمین کا رب ہے ، وہی عرشِ عظیم کا پروردگار بھی ہے])
بخاری: ( 5985 ) ومسلم :( 2730 )

ج: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (مچھلی والے ]یونس علیہ السلام [کی مچھلی کے پیٹ میں دعا یہ تھی: "لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنْ الظَّالِمِينَ"[تیرے سوا  کوئی معبود برحق نہیں، تو پاک ہے، بیشک ظالموں میں سے تو میں ہی ہوں]آپ نے فرمایا کہ  بیشک جو مسلمان بھی ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالی سے دعا مانگے گا تو اللہ تعالی اسکی دعا قبول فرمائے گا)ترمذی: (3505) البانی نے اسے "صحیح ترمذی" میں صحیح کہا ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس طرح  توحید کے ذریعے دنیاوی مصیبتیں ٹلتی ہیں، کسی اورسے نہیں ٹالی جا سکتیں، اسی لئے مصیبت کے وقت دعا میں توحید ہی دعا بنی، اسی لئے مچھلی والے کی دعا کے ذریعے کوئی بھی مصیبت زدہ دعا کرے تو اللہ تعالی اسکی مشکل کشائی فرماتا ہے، اسی طرح بڑی مصیبتوں میں شرک ہی انسان کو پھنساتا ہے، اور ان سے نجات توحید کے ذریعے ملتی ہے، لہذا توحید ہی ساری مخلوق کیلئے جائے پناہ، جائے امان، محفوط قلعہ، اور نصرت و معاونت  ہے"
" الفوائد " ( ص 53 )

تیسری وجہ:
دعا کی ابتدا میں ثنائے الہی کرنا دعاہی  کا حصہ ہے، اور اس  سے متصادم نہیں ہے، اسکی دلیل فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی دعا شروع کرے تو پہلے حمد و ثنا بیان  کرے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم   پر درود پڑھے، اور اس کے بعد جو چاہے سو مانگے)
ترمذی:  ( 3477 ) نے روایت بھی کیا ہے اور اسے صحیح بھی کہا ہے، اور ابو داود ( 1481 ) نے بھی روایت کیا ہے، اور البانی نے اسے "صحیح ترمذی" میں  اسے صحیح کہا ہے۔

وہ لوگ جو ثنا کے وقت ہاتھ اٹھانے کے قائل نہیں   تو وہ اس وقت کیا کریں گے جب ثنائے الہی کے الفاظ دعا کے درمیان میں آجائیں، چنانچہ دعائے استخارہ کے درمیان  الفاظ ہیں[جن کا ترجمہ یہ ہے]: "بیشک تو صاحب استطاعت ہے، مجھ میں کوئی طاقت نہیں، تو جانتا ہے، میں نہیں جانتا، اور تو غیب جاننے والا ہے" تو کیا یہ لوگ دعا کے درمیان میں ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں، اور شروع و ابتدا میں ہاتھ اٹھائے رکھتے ہیں؟!

اس سے معلوم ہوتا ہے  کہ ثنائے الہی بھی دعا کا حصہ ہے، بلکہ ثنائے الہی دعا سے زیادہ  بلیغ ہے، اور اس کی متعدد وجوہات ہیں، جنہیں شیخ الاسلام نے ذکر کیا ہے، ان کیلئے دیکھیں: " مجموع الفتاوى " ( 22 / 376 – 389 )، ان وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: دعا کافر اور مؤمن دونوں کی طرف سے ہوسکتی ہے، جبکہ ثنائے الہی صرف  مؤمن کی طرف سے ہوسکتی ہے، اور پہلے یہ گزر چکا ہے کہ احادیث میں مطلق دعا  سے ذکر اور ثنائے الہی دونوں مراد لیتے ہیں۔

لہذا دعا کی ابتدا میں ثنائے الہی کے وقت  ہاتھ نہ اٹھانے کی کوئی دلیل نہیں ہے؛ کیونکہ ابتدائے دعا میں اللہ تعالی پر ثنائے الہی  کے وقت ہاتھ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے صرف ثنا کے موقع پر  دونوں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے ۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب