الحمد للہ.
"تعزیت" اصل میں ثواب کی امید دلاتے ہوئے صبر کی تلقین و ترغیب، اور شکوہ شکایت سے دور رہنے کا نام ہے، جس میں فوتیدگی کی صورت میں میت کیلئے دعائے مغفرت ، اور مصیبت زدہ کیلئے مشکل کشائی کی دعا کی جاتی ہے۔انتہی
" الموسوعة الفقهية" (12/287)
تعزیت کے سلسلے علمائے کرام کی بیان کردہ تعریفات سے ہر مصیبت زدہ شخص کی تعزیت کرنے کی اجازت آشکار ہوتی ہے، چاہے مصیبت کسی عزیز، مال،اور ملازمت وغیرہ کسی بھی چیز میں نقصان ہونے کی صورت میں ہو، چنانچہ شرعی تعزیت صرف وفات کیساتھ مختص نہیں ہے۔
جیسے کہ "منهج الطلاب" کے حاشیہ "بيجرمی" (1/500) میں ہے کہ:
"مالی نقصان کی صورت میں بھی تعزیت کرنا شرعی طریقہ ہے۔۔۔ اس کیلئے مناسب دعا کی جاسکتی ہے"انتہی
اور "حاشیہ جمل" (2/214) میں ہے کہ:
"اگر کسی کا ایسا مالی یا جانی نقصان ہو جسکا تدارک ممکن ہے تو اسکے لئے دعا کرتے ہوئے کہا جائے گا: " أَخْلَفَ اللَّهُ عَلَيْكَ "یعنی: اللہ تعالی تمہیں اتنا ہی اور دے، اور اگر ایسا جانی نقصان ہو جنکی تلافی ممکن نہیں ہے، مثلا: والد یا والدہ فوت ہوجائے، تو ایسی صورت میں کہا جائے گا: " خَلَّفَ اللَّهُ عَلَيْكَ "یعنی: اللہ تعالی تمہارے لئے انکا قائم مقام بن جائے"انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"آپ نے ذکر کیا ہے کہ فوتیدگی کے علاوہ بھی تعزیت ہوسکتی ہے، تو کیا فوتیدگی کے علاوہ تعزیت کرنا مسنون ہے؟ اور اسکا طریقہ کار کیا ہوگا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"تعزیت" مصیبت زدہ شخص کو ثواب کی امید دلا کر دلاسہ، اور صبر کی تلقین کا نام ہے، چاہے فوتیدگی پر یہ تلقین کی جائے ، یا کسی اور نقصان پر، مثلا: بہت زیادہ مالی نقصان ہونے کی صورت میں آپ مصیبت زدہ شخص کے پاس آئیں اور اسکادکھ بانٹیں، اور صبر کرنے کی تلقین کریں کہ کہیں تکلیف سے نقصان دہ حد تک متاثر نہ ہو" انتہی
"مجموع الفتاوى" (17/384)
واللہ اعلم .