ہفتہ 20 جمادی ثانیہ 1446 - 21 دسمبر 2024
اردو

امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کا عقیدہ

158755

تاریخ اشاعت : 17-08-2013

مشاہدات : 37580

سوال

کیا کسی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ کے بارے میں گفتگو کی ہے؟ میں نے چند لوگوں کو آپکے عقیدہ پر نکتہ چینی کرتے سنا ہے، برائی مہربانی وضاحت کردیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔

امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی بغیر کسی اختلاف کے ائمہ میں شمار کئے جاتے ہیں، تمام اہل علم کا آپکی جلالتِ قدر، اور امامت پر اتفاق ہے۔

علی بن عاصم کہتے ہیں: "اگر ابو حنیفہ کے علم کا انکے زمانے کے لوگوں کے علم سےوزن کیا جائے تو ان پر بھاری ہو جائے گا"

ابن مبارک کہتے ہیں: "ابو حنیفہ سب سے بڑے فقیہ تھے"

شافعی کہتے ہیں: "تمام لوگ فقہ کیلئے ابو حنیفہ کے محتاج ہیں"

خریبی کہتے ہیں: "ابو حنیفہ کے بارے میں حاسد یا جاہل ہی زبان درازی کرتا ہے"

ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "فقہ اور دقیق فقہی مسائل میں امامت کا درجہ آپکے پاس ہے،اور اس بات میں کوئی شک بھی نہیں، اگرکسی کے نزدیک دوپہر ثابت کرنے میں بھی دلیل کی ضرورت ہوتو کوئی چیز بھی اسکے ہاں درست نہیں ہوسکتی، آپکی سیرت کو جمع کیا جائے تو دو جلدوں کی ضخیم کتاب بن سکتی ہے، اللہ ان سے راضی ہو، اور ان پر رحم فرمائے، آپ 150 ہجری میں پیٹ کی بیماری سے شہید ہوئے" انتہی، مزید کیلئے "سیر اعلام النبلاء"(6/390-403) دیکھیں

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ ، توحید، اثباتِ صفات ، تردیدِ جہمیہ ، تقدیر، مقامِ صحابہ ، اور اسکے علاوہ دیگر بڑے بڑے ایمانی مسائل میں منہج السلف کے بالکل موافق اور ائمہ مذاہب کے طریقہ پر تھا،چند ایک مسائل میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منہج السلف کی مخالفت نقل کی گئی ہے، مثلا: انہوں نے کہا کہ ایمان میں کمی زیادتی نہیں ہوتی،اور انکے نزدیک ایمان صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے ، اور یہ کہ عمل ایمان کی حقیقت میں شامل نہیں ۔

ابن عبد البر اور ابن ابو العز کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے ان نظریات سے رجوع کرلیا تھا۔ دیکھیں: "التمہید"(9/247)، "شرح عقیدہ طحاویہ"صفحہ (395)

ایسےہی ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن الخمیس کی کتاب "اعتقاد الائمہ الاربعہ" صفحہ (3-8)کا مطالعہ بھی مفید ہوگا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "تمام مشہور ائمہ کرام اللہ تعالی کی صفات کو ثابت کرتے ہیں، اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں، اور یہ کہ اللہ تعالی کو قیامت کے دن دیکھا جاسکے گا، یہی تمام صحابہ کرام، اہل بیت ، اور انکے نقشِ قدم پر چلنے والوں کا عقیدہ ہے، یہی ان ائمہ کا مذہب ہے جن کے پیروکار موجود ہیں، مثلا: مالک بن انس، ثوری، لیث بن سعد، الاوزاعی، ابو حنیفہ ، شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق۔۔۔"انتہی، "منہاج السنۃ النبویۃ" (2/54)

ایسے ہی عقیدہ طحاویہ جسکے مؤلف ابو جعفر الطحاوی حنفی ہیں کو چند مسائل کے علاوہ منہج اہل سنت و الجماعت کے مطابق سمجھا جاتا ہے، اسی لئے علمائے اسلام کے ہاں یہ کتاب بہت نشر ہوئی، حتی کہ بہت سی مساجد، اداروں اور یونیورسٹیز میں باقاعدہ پڑھائی جانے لگی۔

امام طحاوی کتاب کے مقدمہ صفحہ (1)میں کہتے ہیں:

"اس کتاب میں اہل سنت والجماعت کے عقیدہ کا تذکرہ فقہائے کرام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی ، ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری ، اور ابو عبد اللہ محمد بن حسن الشیبانی، -اللہ ان سے راضی ہو-کے نظریہ اور اصولِ دین کے بارے میں انکے اعتقادکے مطابق ہے جس کے ذریعے وہ اللہ رب العالمین کو مانا کرتے تھے" انتہی

ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بہت سے پیروکار عقائد میں اشعری اور ماتریدی مذہب سے تعلق رکھتے تھے ، جسکی وجہ سے حنفی مذہب میں سلف صالحین کے عقیدہ کی مخالفت آگئی ، بلکہ خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ انکے مخالف ہے، اسی لئے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی جانب منسوب بہت سی باتیں ثابت نہیں ہوتیں، بلکہ یہ انکے ماننے والوں کی بات ہوتی ہے جو اپنے تیئں انکے مذہب کی جانب نسبت رکھتے ہیں۔

ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"واضح ہے کہ یہ مخالفات ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت نہیں ہیں، بلکہ یہ انکے شاگردوں کی جانب سے ہے، کیونکہ ان میں اکثر قابل اعتبار درجہ سے گری ہوئی ہیں جنہیں ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہیں پسند کرتے" شرح عقیدہ طحاویہ"صفحہ (226)

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے لکھا جانے والا رسالہ ہو سکتا ہے اسکا کچھ حصہ انہوں نے خود لکھوایا ہو، اور پھر اسے انکے کسی شاگرد نے لے لیا ہو، جسکا نام (الفقہ الاکبر)ہے اس رسالے میں سےکچھ عبارتیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حمویہ میں نقل کر چکے ہیں، ایسے ہی ابن ابی العز طحاویہ کی شرح میں۔ لیکن لگتا ہے کہ صحیح عقیدہ سے منحرف کچھ متاخرین کی جانب سے اس میں تبدیلی کی گئی ہے، اور بہت سی تاویلیں اس میں شامل کردی گئیں، کچھ نے اسکی شرح اشعری مذہب کے مطابق بھی کی ہے، اور کچھ نے منکرینِ صفات کے مذہب پر اسکی شرح کرتے ہوئے سلف کے عقیدہ کا انکار کردیا،اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسے اساتذہ سے علم حاصل کیا جو تاویل ، تحریف ِ صفات وغیرہ کے قائل تھے" انتہی "فتاوی الشیخ ابن جبرین"(63/14)

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ابو حنیفہ اور ائمہ اربعہ تمام سلفی منہج پر تھے، ہاں کسی نہ کسی سے غلطی ہونا ایک فطری بات ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ انکے ماننے والے ایک طرف ہیں جبکہ انکے ائمہ کرام دوسری جانب ہیں"انتہی

اس لئے متفقہ ائمہ کرام جنکی جلالت قدر، عدل پسندی، اور امامت پر سب لوگوں کا اتفاق ہوچکا ہےانکے بارے میں زبان درازی سے گریز کرنا واجب ہے، کیونکہ علمائے کرام کی ہونیوالی چغلیاں رائیگاں نہیں جاتیں، اور حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر کسی کی بات لی بھی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، اس لئے مسلمان کیلئے کسی کو اپنا راہنما بنانے کیلئے اسکا درست عقیدہ کافی ہے ، پھر اسکی جو بات صحیح عقیدہ کے مخالف ہو اسے ترک کردے، اور علماء، صلحاء، و فضلائے امت کی عزت آبرو میں نکتہ چینی کرنےکی کوشش مت کرے۔

یہی وجہ ہے کہ ذہبی اور ابن کثیر رحمہما اللہ وغیرہ دیگر مؤرخینِ اسلام نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی سوانح بیان کرتے ہوئےکوئی ایسی بات ذکر نہیں کی جس سے آپ کی شان میں کوئی کمی آئے، حقیقت میں یہی علم و تقوی ہے، اور علمائے کرام کے حقوق کی ادائیگی و احترام کرنے کیلئے کم از کم یہی انکے بارے میں ہم پر واجب ہے۔

کچھ تاریخی کتابوں میں مذکورہ بالا حقوق کے منافی چیزیں بھی ذکر کی گئی ہیں، مثلا خلقِ قرآن کا مسئلہ، تو انکے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ سے خلقِ قرآن کے بارے میں کوئی بات پایا ثبوت تک نہیں پہنچتی، اسکے بعد یہ اس مسئلہ کو بالکل بند کردیا گیا، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عزت و احترام کیا جانے لگا اور دین میں امامت کے درجہ پر فائز رکھا گیا۔

شیخ عبد الرحمن المعلمی رحمہ اللہ اس قسم کے مسائل اچھالنے والوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ: "حکمت کا تقاضا ہے کہ تقریباً سات سو سال پہلے گزر جانے والے علماء کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے اور انکے بارے میں اچھے کلمات کہیں جائیں" انتہی "التنکیل" (1/101)

چنانچہ اس بنا پر: کسی کو صاحب علم و فضل ائمہ کرام جیسے ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں انکے عقیدہ کے بارے میں زبان درازی کی اجازت نہیں ، اور جو کوئی اس جرم کا مرتکب ہو گا وہ سزا کا مستحق ہے تاکہ اسے اس قسم کے قبیح فعل سے روکا جائے۔

مزید تفصیلی گفتگو کیلئے ڈاکٹر الخمیس حفظہ اللہ کی کتاب "أصول الدين عند الإمام أبي حنيفة" کا مطالعہ کریں۔

اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ کے بارے میں مزید جاننے کیلئے سوال نمبر (46992) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب