الحمد للہ.
جواب :الحمدللہ:
اول:
بيٹى پر شفقت و رحمدلى اور نرمى كرتے ہوئے اپنى بيٹى كو والد كا اپنے ساتھ لگانا اور اس كا سر يا رخسار كا بوسہ لينا جائز ہے، چاہے بيٹى بالغہ اور بڑى عمر كى ہو، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ فتنہ يا شہوت كا ڈر نہ ہو تو ايسا كرنا جائز ہے اور اس ميں مونہہ كا بوسہ لينا جائز نہيں يہ مستثنى ہے كيونكہ يہ صرف خاوند اور بيوى كے ساتھ مخصوص ہے، اور اس ليے بھى كہ اس سے غالبا شہوت ميں حركت پيدا ہوتى ہے.
امام احمد رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
آيا مرد اپنى محرم عورت كا بوسہ لے سكتا ہے يا نہيں ؟
انہوں نے جواب ديا:
" جب سفر سے واپس آئے اور اسے اپنے نفس كا ( شہوت ) كا ڈر نہ ہو تو.
ابن مفلح كہتے ہيں:
" ليكن وہ ايسا مونہہ پر كبھى مت كرے ( يعنى مونہہ كا بوسہ مت لے ) صرف پيشانى يا سر كا بوسہ لے " انتہى
ديكھيں: الآداب الشرعيۃ ( 2 / 256 ).
اور الاقناع ميں درج ہے:
" اگر كسى كو اپنے نفس كا خطرہ نہ ہو تو سفر سے واپس آنے والے شخص كے ليے اپنى محرم عورتوں كا بوسہ لينے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن وہ ايسا مونہہ پر مت كرے، بلكہ پيشانى اور سر كا بوسہ لے " انتہى
ديكھيں: الاقناع ( 3 / 156 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" فقھاء كرام كا اتفاق ہے كہ شہوت كے ساتھكسى مرد كے ليے دوسرے مرد كا مونہہ يا ہاتھ وغيرہ چومنا جائز نہيں، اور اسى طرح عورت كا عورت كو چومنا اور معانقہ اور بدن سے بدن لگانا وغيرہ جائز نہيں ہے.
ليكن اگر مونہہ كے علاوہ ہو اور عزت اور حسن سلوك يا پھر ملاقات اور الوداع كرتے وقت شفقت و رحمدلى كے ساتھ ہو تو پھر اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 13 / 130 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
اگر كسى شخص كى بيٹى بلوغت كى عمر سے تجاوز كر جائے اور بڑى ہو جائے چاہے شادى شدہ ہو يا غير شادى شدہ تو كيا اس كا ہاتھ اور مونہہ وغيرہ چومنا جائز ہے يا نہيں ؟ اور اگر ان جگہوں كا بوسہ ليا جائے تو كيا حكم ہوگا ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" مرد كے ليے بغير شہوت اپنى چھوٹى يا بڑى عمر كى بيٹى كا بوسہ لينے ميں كوئى حرج نہيں، اور اگر بيٹى بڑى ہے تو پھر رخسار كا بھى بوسہ لے سكتا ہے كيونكہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ انہوں نے اپنى بيٹى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ كے رخسار كا بوسہ ليا تھا.
اور اس ليے بھى كہ مونہہ كا بوسہ ( يعنى ہونٹوں پر ہونٹ ركھ كر ) لينے سے شہوت ميں حركت ہوتى ہے، اس ليے اسے ترك كرنا ہى بہتر اور زيادہ احتياط كا باعث ہے، اور اسى طرح بيٹى بھى بغير شہوت كے اپنے باپ كے ناك يا سر كا بوسہ لے سكتى ہے.
ليكن شہوت كے ساتھ ايسا كرنا قطعى طور پر سب كے ليے حرام ہے، كيونكہ اس سے فتنہ پيدا ہوگا، اور فحاشى كا سد باب كرنے كے ليے بھى ايسا كرنا ضرورى ہے "
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 78 - 79 ).
دوم:
بچپن اور چھوٹى عمر ميں بيٹے اور بيٹى كا بوسہ لينا اور انہيں اپنے ساتھ لگانا يہ اس مہربانى اور رحمدلى و شفقت ميں شامل ہوتا ہے جو اپنى اولاد كے ساتھ ہونى چاہيے، اور انہيں اس سے محروم نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ يہ تو وہ رحمت ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے بندوں كے دلوں ميں ركھى ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى تو اپنى رحمت بھى اپنے ان بندوں پر ہى كرتا ہے جو دوسروں پر رحم كرتے ہيں.
لہذا ہم ماؤں اور باپوں كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنى اولاد كو اس محبت و الفت اور رحمت سے محروم مت ركھيں كيونكہ يہ تو ايك اساسى طور پر نفسياتى ضرورت ہے، اور خاص كر چھوٹے بچوں كے ليے، جيسا كہ دور حاضر ميں بھى اور پہلے قديم دور ميں بھى سرچ كے ساتھ ثابت ہو چكا ہے.
اور پھر صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ميں دن كے وقت رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ نكلا نہ تو انہوں نے مجھ سے بات كى اور نہ ہى ميں نے آپ سے كوئى بات كى حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بنو قينقاع كے بازار ميں آئے پھر وہاں سے فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا كے گھر آئے اور فرمايا:
كيا يہاں بچہ ہے يہاں بچہ ہے ؟ ( يعنى حسن رضى اللہ عنہ ) ہم نے خيال كيا كہ اس كى ماں نے اسے روك ليا ہے، كيونكہ وہ اسے غسل دے رہى ہے اور اسے لونگ اور خوشبو كا ہار پہنا رہى ہے، تو كچھ ہى دير بعد وہ دوڑتا ہوا آيا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ آ كر چمٹ گيا اور نبى كريم صلى اللہ وسلم نے بھى اسے اپنے ساتھ چمٹا ليا اور فرمايا:
" اے اللہ ميں اس سے محبت كرتا ہوں تو بھى اس سے محبت كر، اور جو اس سے محبت كرے اس سے بھى محبت كر "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2122 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2421 ) يہ الفاظ مسلم كے ہيں.
اور صحيح بخارى ميں انس رضى بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ ابراہيم كى دايہ جو انہيں پلا رہى تھى كے خاوند ابو سيف القين كے پاس گئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابراہيم كو پكڑ كر اسے چوما ... "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1303 ).
يہ صحابى رضى اللہ تعالى عنہ لوہار تھے، اور ابراہيم رضى اللہ تعالى عنہ ان كى بيوى كا دودھ پيتے تھے، يعنى رضاعى باپ ہيں، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كے پاس اس ليے آئے كہ اپنے بچے كو مل سكيں اور اسے سلام كريں اور اس سے معانقہ كريں اور اس كا بوسہ ليں.
اور صحيح بخارى ميں ہى ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما كا بوسہ ليا اور اس وقت آپ كے پاس اقرع بن حابس تميمى بھى بيٹھے ہوئے تھے تو اقرع كہنے لگا:
ميرے دس بچے ہيں ميں نے تو ان ميں سے كبھى كسى كو بھى نہيں چوما.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى طرف ديكھ كر فرمايا:
" جو رحم نہيں كرتا اس پر رحم نہيں كيا جاتا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5997 ).
اور صحيح بخارى ميں ہى روايت ہے كہ:
براء رضى اللہ تعالى عنہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ ہجرت كے بعد ان كے گھر گئے تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى بيٹى عائشہ ليٹى ہوئى تھى اور انہيں بخار تھا تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے باپ نے عائشہ كا رخسار چوما اور كہنے لگے: ميرى بيٹى تم كيسى ہو ؟ "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3704 ).
واللہ اعلم