جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

منگنى ختم كرنے كے بعد كيا مجھے مہر واپس لينے كا حق ہے ؟

160721

تاریخ اشاعت : 17-02-2013

مشاہدات : 4048

سوال

ميں شادى شدہ ہوں، ليكن اس شادى سے قبل ميں نے ايك لڑكى سے اس كے باپ كے ذريعہ منگنى كى تھى، اور ميں اس لڑكى كے باپ كى رغبت كے پيش نظر لڑكى سے ملتا بھى نہيں تھا، ليكن ميرى بہن نے تجويز پيش كى كہ رخصتى ميں تو دير ہے اور عقد نكاح سے قبل ہى مہر كى ادائيگى كر دو؛ كيونكہ لڑكى كا باپ ہر بار اپنى بيٹى سے ملاقات كى رغبت نہيں ركھتا، اور ميرے ساتھ نہيں جانے ديتا.
باپ كى چاہت و رغبت تھى كہ رخصتى كے قريب ہى نكاح بھى كيا جائيگا، يعنى جب ميں مكمل طور پر شادى كے ليے تيار ہو جاؤں تو پھر، اس كے بعد ميں نے باپ كى جانب سے صادر شدہ ان قوانين كو ناپسند كرنا شروع كر ديا، كيونكہ شريعت ميں اس كى كوئى نص نہيں ملتى كہ عقد نكاح ابھى نہ لكھا جائے.
ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا ميرے ليے مہر واپس لينا جائز ہے يا نہيں ؟ ميں نے مہر لڑكى كے والد كو ادا كيا تھا ليكن عقد نكاح ابھى لكھا بھى نہيں گيا تھا، اور ميں نے لڑكى ديكھا بھى نہيں، صرف منگنى كے دوران ہلكى سى نظر مارى تھى، اور باپ كى اجازت سے لڑكى كے ساتھ ٹيلى فون پر بات چيت ہوتى رہتى تھى.
برائے مہربانى ہمارے اس مسئلہ ميں فتوى جارى كريں اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟
نوٹ: اب ميں شادى شدہ ہوں، ليكن ميرا خيال ہے كہ يہ رقم ميرا حق ہے، تو پھر ميں اپنا حق واپس كيوں نہ لوں ؟!

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر شرعى اركان كے ساتھ نكاح مكمل نہ ہوا ہواور ابتدائى طور پر مشروع منگنى ہى ہو، پھر منگنى كرنے والا شخص عقد نكاح سے قبل ہى منگنى ختم كرنے كا فيصلہ كرے تو اس نے جو مہر ادا كيا ہو وہ سارا واپس لينے كا حق ركھتا ہے، چاہے منگنى آدمى نے خود ختم كى ہو، يا پھر لڑكى كى جانب سے ختم ہوئى ہو، اس ميں كسى قسم كا كوئى اختلاف نہيں ہے.

كيونكہ مہر كے متعلق احكام تو نكاح كے ساتھ مربوط ہيں، چاہے عقد نكاح كے بعد دخول و رخصتى ہوئى ہو يا پھر عقد نكاح كے بعد رخصتى نہ ہوئى ہو تو دونوں حالتوں ميں عليحدگى ہو جانے كى صورت ميں احكام مختلف ہيں، لہذا مہر كا تعلق تو عقد نكاح سے ہے نہ كہ صرف منگنى سے.

ابن عابدين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس نے جو مہر بھيجا بعينہ وہ واپس كيا جائيگا چاہے استعمال سے اس ميں تبديلى بھى ہو چكى ہو، يا پھر اگر ضائع ہو چكا ہو تو اس كى قيمت ادا كى جائيگى؛ كيونكہ معاوضہ تو پورا نہيں ہوا، اس ليے واپس لينا جائز ٹھرا " انتہى

ديكھيں رد المختار ( 3 / 153 ).

اور ابن عابدين نے ہى بعض حنقى كتب سے فتوى نقل كرتے ہوئے كہا ہے:

" منگنى كے بعد جو مہر بھيجا وہ موجود ہو يا ضائع ہو چكا ہو تو وہ واپس كيا جائيگا " انتہى

ديكھيں: رد المختار ( 4 / 574 ).

ابن حجر حيتمى رحمہ اللہ كا قول بھى اسى معنى ميں ہے:

" كسى عورت سے منگنى كى اور پھر عقد نكاح سے قبل بغير كسى الفاظ كے اس كى جانب مال بھيجا يا اسے ديا، اس سے اس كى معاونت مقصود نہ تھى، پھر عورت يا مرد كى جانب سے منگنى ختم كر كے اعراض كر ليا گيا تو جو عورت كو ديا اور پہنچا تھا وہ واپس ہوگا... كيونكہ اس نے تو وہ مال اسے نكاح كى غرض سے ديا تھا، اور نكاح نہيں ہوا " انتہى

ديكھيں: تحفۃ المحتاج ( 7 / 421 ).

شيخ حسان ابو عرقوب " منگنى ختم كرنے " كے عنوان ميں رقمطراز ہيں:

" جب عقد نكاح سے قبل منگيتر نے اپنى قدم كو مہر پيش كر ديا اور پھر كسى جانب سے بھى منگنى ختم كر دى گئى يا كوئى فوت ہوگيا تو مہر مقبوض كا شرعى حكم كيا ہو گا ؟

احناف نے بيان كيا ہے كہ منگنى كرنے والے نے جو چيز مہر كے حساب ميں عورت كو دى ہے چاہے وہ بعينہ يا عوض ہو تو واپس دى جائيگى اور اگر ضائع ہو چكى ہو تو اس كا معاوضہ ديا جائيگا.

كسى بھى مذہب ميں مجھے اس كى كوئى نص نہيں ملى بلكہ ميں نے سب مذاہب نے جو مہر كى تعريف ميں كلام كى ہے اس پر غور و فكر كرنے كے بعد يہى سمجھا ہے، اس مسئلہ ميں ان كے ہاں حنفيہ كے حكم سے مخالف نہيں ہونا چاہيے.

چنانچہ مالكيہ كے ہاں مہر عقد نكاح كے اركان ميں شامل ہوتا ہے، اور منگيتر لڑكى اور لڑكے كے مابين كوئى عقد نكاح نہيں اس ليے آدھا مہر تو اسے نكاح كى صورت ميں ہى حاصل ہوگا، اور پورا نكاح اسے دخول و رخصتى كى حالت ميں ملتا ہے، وگرنہ يہ لوگوں كا باطل طريقہ سے مال كھانے كے مترادف ہوگا.

اس ليے دونوں ميں سے كى كا منگنى ختم كرنا اور عقد نكاح نہ ہونے سے منگيتر مہر كى مستحق نہيں ٹھرتى اس ليے اسے وہ مہر اپنے منگيتر كو واپس كرنا چاہيے.

اور ہم ديكھتے ہيں كہ شافعى حضرات نے مہر كى تعريف كرتے ہوئے كہا ہے:

" وہ جو نكاح يا وطئ يا زبردستى و قہر كے ساتھ بضع ضائع ہونے سے واجب ہوتا ہو مثلا رجوع و شہود "

يہ وہ حالات ہيں جن ميں مہر واجب ہوتا ہے، اور منگنى ان ميں شامل نہيں، اس ليے عورت كے ليے لينا حلال نہيں بلكہ اسے واپس كرنا چاہيے.

حنابلہ كے ہاں مہر يہ ہے كہ:

" نكاح ميں مقرر كردہ عوض ہے "

منگيتر لڑكے اور لڑكى كے مابين نكاح نہيں ہوا جو پورا يا آدھا مہر واجب كرتا ہو، اس طرح سب فقھاء كى آراء ايك اہم نقطہ پر مل جاتى ہيں وہ يہ كہ:

" مہر عقد نكاح كى حالت ميں ہى واجب ہوتا ہے، اور منگنى كى حالت ميں عقد نكاح نہيں پايا جاتا، اس ليے كسى بھى جانب سے منگنى ختم كر دينے كے بعد عورت كا مہر ركھنا جائز نہيں، بغير كسى مشروع سبب كے مال ركھا گيا ہے، اس ليے وہ واپس كرنا ہو گا " انتہى

درج ذيل لنك ديكھيں:

اور منگنى ختم كرنے كى صورت ميں ہديہ اور تحفہ جات كا حكم معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 101859 ) اور ( 149744 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب