الحمد للہ.
اصولی طور پر چند جگہوں کے علاوہ دعا کرتے ہوئے ہاتھ اٹھائے جائیں گے، کیونکہ دعا کیلئے ہاتھ اٹھانا شرعی عمل ہے، اور اس مسئلے کا تفصیلی بیان پہلے سوال نمبر: (11543) میں گزر چکا ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانا قبولیت کے اسباب میں شامل ہے، ماسوائے چند جگہوں کے ،
کیونکہ ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں کی اس لیے ہم
بھی ہاتھ نہیں اٹھاتے، مثلاً: خطبہ جمعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا
کر دعا نہیں فرمائی، صرف بارش کی دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے ہیں، اسی طرح دو سجدوں کے
درمیان، آخر تشہد میں سلام پھیرنے سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے ہوئے
ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، چنانچہ ہم بھی ان جگہوں میں ہاتھ نہیں اٹھائیں گے کیونکہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ نہیں اٹھائے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کا کوئی کام کرنا اگر حجت ہے، تو اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کام نہ
کرنا بھی حجت ہے، یہی حکم پانچوں فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھانے کا ہے، اس لیے کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازوں کے بعد شرعی اذکار پڑھتے ہوئے ہاتھ نہیں اٹھاتے
تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ہم بھی ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔
البتہ ایسے مقامات جہاں پر دعا کیلئے ہاتھ اٹھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، ایسی جگہوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے ہم بھی ہاتھ اٹھا کر دعا کرینگے، ویسے بھی دعا میں ہاتھ اٹھانا قبولیتِ دعا کا سبب ہے۔
اور اگر کوئی مسلمان کسی وقت دعا کرنا چاہتا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے
اس بارے میں ہاتھ اٹھانا یا چھوڑنا کچھ بھی بیان نہیں ہوا، تو ایسی صورت میں ہم
دعا کیلئے ہاتھ اٹھائیں گے، اور اس کیلئے دلیل ان احادیث کو بنائیں گے جن میں دعا
کیلئے ہاتھ اٹھانے کو قبولیت کا سبب قرار دیاگیا ہے، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (26/146)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسئلہ: نماز سے باہر کسی دعا میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ایسی
بہت سے روایات ذکر کی ہیں جو کہ نماز سے باہر رفع الیدین کرنے کے جواز کی دلیل
ہیں۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے کہا: اس مسئلے میں اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں،
تاہم جتنی احادیث میں نے ذکر کردی ہیں یہ کافی ہیں، اور مقصد یہ ہے : دعا میں ہاتھ
اٹھانے کے متعلق تمام مواقع کو یکجا جمع کرنے کا مدعی شخص سنگین غلطی پر ہے[یعنی:
مدعی ان مواقع کا مکمل طور پر شمار نہیں کرسکتا]" انتہی
"شرح المهذب" (3/489)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"کیا میت کی قبر کے پاس دعا ہاتھ اٹھا کر کی جا سکتی ہے ؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر ہاتھ اٹھا لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے
عائشہ رضی اللہ عنہانقل کرتی ہیں کہ : "آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان گئے، اور
وہاں پر مدفون لوگوں کیلئے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی" مسلم۔" انتہی
"مجموع الفتاوى" (13/337)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دفن کرنے کے بعد میت کیلئے دعا کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، چنانچہ
ابو داود کی روایت کے مطابق جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میت کو دفن کر کے فارغ ہوئے
تو آپ نے کھڑے ہو کر فرمایا: (اپنے بھائی کیلئے استغفار ، اور ثابت قدمی کی دعا
کرو، کیونکہ اس سے اب سوالات کیے جائیں گے) چنانچہ جس شخص نے میت کیلئے استغفار
مانگنے کی غرض سے ہاتھ اٹھائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور جس شخص نے ہاتھ
اٹھائے بغیر ہی یہ کہہ دیا: "یا اللہ! اس کی بخشش فرما، یا اللہ! اس کی بخشش فرما ،
یا اللہ! اس کی بخشش فرما ، یا اللہ! اسے ثابت قدم بنا، یا اللہ! اسے ثابت قدم بنا،
یا اللہ! اسے ثابت قدم بنا" اور پھر چلا جائے۔۔۔" انتہی
"لقاء الباب المفتوح" مجلس نمبر:(82)
شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"میت کو دفن کرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا کیا حکم ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس بارے میں دونوں طرح گنجائش ہے، کیونکہ ہمیں اس وقت میں ہاتھ اٹھانے کے
اثبات یا نفی کی کسی دلیل کا علم نہیں ہے، لہذا دعا کرنیوالا شخص ہاتھ اٹھائے یا
نا اٹھائے اسے اختیار ہے، ہاتھ اٹھانے کی تین حالتیں ہیں:
1- ایک حالت یہ ہے کہوہ جگہیں جہاں نصوص میں ہاتھ اٹھانے کے اثبات میں وضاحت موجود ہے، مثلاً: عرفات کے میدان میں دعا، پہلے اور دوسرے جمرے کے پاس دعا، بارش کی دعا کے وقت۔ [ان جگہوں میں ہاتھ اٹھانا سنت سے ثابت ہے]
2- کچھ حالات ایسے ہیں کہ ان میں ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں ہے، مثلاً: خطبہ جمعہ کے دوران دعا کے وقت، چنانچہ خطبہ جمعہ کے دوران دعا میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں، خطیب اور مقتدی کوئی بھی ہاتھ نہ اٹھائے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ خطبے ارشاد فرمائے، اس کے باوجود آپ نے خطبہ کے دوران ہاتھ نہیں اٹھائے۔۔۔
3-
ایسے حالات جہاں ہاتھ اٹھانے یا نہ اٹھانے کی کوئی قید نہیں ہے، تو ایسی صورت حال
میں ہاتھ اٹھانا بھی درست ہے، اور نہ اٹھانا بھی جائز ہے" ا نتہی
" شرح سنن ابو داود "
واللہ اعلم.