سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ھائى اخراجات برداشت نہ كريں تو كيا بہن بھائيوں كى لاعلمى ميں ان كا مال لے سكتى ہے ؟

162369

تاریخ اشاعت : 08-01-2013

مشاہدات : 3500

سوال

ميں شادى نہيں اور اپنى والدہ كے ساتھ رہتى تھى اور اپاہچ ہوں اور كئى ايك بيماريوں كى شكار بھى، ميرے چار بھائى ہيں، ليكن والدہ كى وفات كے بعد ميرے بھائيوں نے مجھے چھوڑ ديا ہے.
يہ علم ميں رہے ميرى والدہ كو ان كے شہيد بيٹے كى مد ميں گورنمنٹ سے ماہانہ رقم ملتى تھى، والدہ كى وفات كے ڈيڑھ ماہ بعد ميں نے يہ رقم لے كر اپنے اخراجات ميں صرف كر لى، كيونكہ ميں كوئى كام نہيں كرتى، ميرے بھائى مجھے چھوڑ چكے، برائے مہربانى ميں اس سلسلہ ميں شرعى حكم معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ اس ميں شرعى حكم كيا ہے ؟
اللہ كى آپ پر سلامتى ہو.

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم عرش عظيم كے رب سے اللہ عزوجل سے دعا گو ہيں كہ وہ آپ كو شفايابى و عافيت عطا فرمائے، اور آپ كى سارى پريشانياں اور غم دور فرمائے، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى سننے والا قريب اور دعا قبول كرنے والا ہے.

اول:

آپ كو يہ مال خرچ كرنے سے قبل اس سلسلہ ميں شرعى حكم دريافت كرنا چاہيے تھا، كيونكہ انسان كو كوئى قدم اٹھانے سے قبل اس كے بارہ ميں شرعى حكم دريافت كرنا چاہيے، يہ نہيں كہ پہلے وہ كام كر لے اور پھر اس كے متعلق حكم دريافت كرتا پھرے.

دوم:

اس رقم كے متعلق اصل تو يہى ہے كہ يہ رقم سب ورثاء كى ملكيت ہے، اور اسے ورثاء كے حصوں كے مطابق تقسيم كيا جائيگا.

ليكن اگر واقع ايسا ہى ہے جيسا آپ بيان كر رہى ہيں كہ آپ كے بھائيوں نے آپ كا نان و نفقہ برداشت كرنے كى ذمہ دارى ميں كوتاہى كا ارتكاب كيا ہے تو آپ ان كے مال سے اتنا مال لے سكتى ہيں جو ان كے ذمہ آپ كا واجب كردہ نفقہ تھا.

اس مسئلہ كو علماء كرام كے ہاں " الظفر بالحق " يعنى جس كى حق كى بنا پر مدد كى گئى ہے.

اس ليے اگر كسى شخص كسى دوسرے شخص كے ذمہ حق ہے، اور وہ اپنا حق اس سے نہيں لے سكتا اور پھر اس كے ہاتھ اس شخص كا كوئى مال لگ گيا تو اسے تو وہ اپنے حق جتنا مال لے سكتا ہے، خاص كر جب حق كا سبب واضح اور ظاہر ہو مثلا بيوى اور رشتہ داروں كا نفقہ، اكثر علماء نے اسے راجح قرار ديا ہے.

اس كى دليل عائشہ رضى تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے:

ام المؤمنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ہند بن عتبہ رضى اللہ تعالى عنہا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئيں اور كہا:

ابو سفيان ايك بخيل آدمى ہے، اور مجھے اور ميرى اولاد كے ليے كافى رقم مجھے نہيں ديتا، اتنا ہے كہ ميں اس كى لاعلمى ميں كچھ رقم لے لوں تو پھر گزر ہوتا ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم بہتر طريقہ سے اتنا مال لے ليا كرو جتنا تمہيں اور تمہارے بچے كو كافى ہو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5364 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1714 ).

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں اپنے خاوند كے مال سے اپنا اور اپنى اولاد كے اخراجات كے ليے خاوند كى لا علمى سے مال لينے كى اجازت دى.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر حق كا سبب ظاہر مثلا زوجيت يا بيٹا ہونا جس كى بنا پر نفقہ واجب ہوتا ہے تو صاحب حق كو بقدر حق اس كى لاعلمى ميں بقدر حق مال لينا جائز ہے " انتہى

ديكھيں: اعلام الموقعين ( 4 / 21 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب سبب ظاہر ہو مثلا نفقہ كا حق ہو تو خاوند كے ذمہ دارى پورى نہ كرنے كى صورت ميں بيوى اپنے خاوند كے مال اور رشتہ دار اپنے رشتہ دار كے مال سے بقدر واجب نفقہ مال لے لينے ميں كوئى حرج نہيں " انتہى

ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 9 / 322 ـ 323 ).

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 106540 ) اور ( 138047 ) اور ( 27068 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب