اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اپنى طلاق شدہ بيوى كو اس شرط پر واپس لانا كہ وہ اپنے حق وطئ اور مبيت سے دستبردار ہو جائے

163057

تاریخ اشاعت : 03-10-2011

مشاہدات : 5517

سوال

ميرے اور ميرى بيوى كے مابين بہت بڑى مشكل اور اختلاف پيدا ہوا جو بالآخر طلاق پر منتج ہوا يہ پہلى طلاق تھى ہمارى ايك برس اور چار ماہ كى بيٹى بھى ہے، اس وقت بيوى حاملہ ہے معاملہ بيوى سے نفرت تك جا پہنچا ہے اس ليے اب بيوى سے رجوع كرنا بہت مشكل محسوس ہوتا ہے.
ليكن مجھے اپنى اولاد كے مستقبل كا خطرہ لگا رہتا ہے تو كيا ميرے ليے يہ جائز ہے كہ ميں اپنى بيوى كو يہ پيشكش كروں كہ ايك شرط پر ميں رجوع كرونگا كہ تمہيں نان و نفقہ كے علاوہ كچھ نہيں دونگا، تا كہ ہم اپنى اولاد كى تربيت كر سكيں، اور يہ بھى ممكن ہے كہ ميں اور دوسرى شادى كر لوں.
اگر وہ اس پر متفق ہو جائے تو كيا اس اتفاق پر بيوى سے رجوع كرنے كے ليے دو گواہ بنانا ضرورى ہونگے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنى بيوى سے اس شرط پر صلح كر لے كہ بيوى اپنى بارى اور حق مبيت يا پھر نان و نفقہ يا كوئى دوسرا حق چھوڑ كر اس سے دستبردار ہو جائے، يعنى اسے خاوند اپنے نكاح ميں ہى ركھے اور اسے طلاق مت دے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر كسى عورت كو اپنے خاوند كى بددماغى اور بے پرواہى كا خوف ہو تو دونوں آپس ميں جو صلح كر ليں اس ميں كسى پر كوئى گناہ نہيں، اور صلح بہت بہتر چيز ہے، طمع و لالچ ہر ہر نفس ميں شامل كر دى گئى ہے، اگر تم اچھا سلوك كرو اور پرہيزگارى كرو تو تم جو كچھ كر رہے ہو اس پر اللہ تعالى پورى طرح خبردار ہے النساء ( 128 ).

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

ام المؤمنين سودہ رضى اللہ تعالى عنہما كو خدشہ ہوا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں طلاق دے ديں گے، تو انہوں نے عرض كيا:

اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے آپ طلاق مت ديں اور اپنے نكاح ميں ہى ركھيں، اور ميرى بارى كا دن آپ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو دے ديں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا ہى كيا.

چنانچہ يہ آيت نازل ہوئى:

دونوں آپس ميں جو صلح كر ليں اس ميں كسى پر كوئى گناہ نہيں، اور صلح بہت بہتر چيز ہے .

اس ليے جس پر دونوں خاوند اور بيوى صلح كريں وہ جائز ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 3040 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے اس آيت كى تفسير يہى كى ہے:

امام بخارى اور مسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ يہ آيت كريمہ اس طرح كى حالت كے بارہ ميں ہى نازل ہوئى ہے:

ان كا بيان ہے:

اور اگر عورت كو اپنے خاوند كى بددماغى اور بےپرواہى كا خوف ہو .

يہ وہ عورت ہے جو اسے طلاق دينا چاہتا ہو اور اسے چھوڑ كر كسى دوسرى عورت سے شادى كرنا چاہے تو يہ عورت اسے كہے: تم مجھے ركھو اور طلاق مت دو، اور ميرے علاوہ كسى اور عورت سے بھى شادى كر لو، تم نہ تو مجھے نان و نفقہ دو اور نہ ہى ميرى بارى تقسيم كرو.

تو اللہ تعالى كا يہى فرمان ہے:

ان دونوں پر صلح كرنے ميں كوئى گناہ نہيں، اور صلح كرنا بہتر ہے .

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4910 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 3021 ).

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب عورت كو اپنے خاوند سے خدشہ ہو كہ وہ اس سے بھاگ رہا ہے يا پھر اسے طلاق دےگا تو عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنا سارا يا كچھ حق ختم كر دے يعنى نان و نفقہ يا لباس يا مبيت وغيرہ حقوق ميں سے كسى حق سے دستبردار ہو جائے، اور خاوند كو اسے قبول كرتے ہوئے اسے اپنے نكاح ميں ركھنا چاہيے، اس ميں عورت پر كوئى گناہ نہيں كہ وہ اپنا حق خاوند كو دے دے، اور نہ ہى خاوند پر كوئى اسے قبول كرنے ميں كوئى گناہ ہوگا.

اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

دونوں آپس ميں جو صلح كر ليں اس ميں كسى پر كوئى گناہ نہيں .

اور اس كے بعد پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:

اور صلح بہت بہتر چيز ہے .

يعنى عليحدگى اور طلاق سے صلح بہتر ہے " انتہى

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 426 ).

يہ صلح زوجيت كى حالت ميں ہونى چاہيے، رہا يہ مسئلہ كہ بيوى كو طلاق دے كر بعد ميں اس سے اس شرط پر رجوع كرنا كہ اگر دوسرى شادى كر لى تو تم اپنا حق مبيت چھوڑ دو گى.

مذاہب اربعہ كے جمہور علماء كرام كے ہاں اس طرح رجوع كرنا صحيح نہيں ہوگا كہ اسے شرط پر معلق كر كے رجوع كيا جائے.

ليكن بعض اہل علم كہتے ہيں كہ اگر شرط پيش كرنے ميں خاوند كو كوئى صحيح غرض اور مقصد ہو تو پھر مشروط رجوع كرنا صحيح ہوگا.

مزيد تفصيل كے ليے ديكھيں: تبيين الحقائق ( 4 / 132 ) اور حاشيۃ الدسوقى ( 2 / 420 ) اور مغنى المحتاج ( 5 / 5 ) اور المغنى ابن قدامۃ ( 7 / 405 ) اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 108 ) اور الشرح الممتع ( 13 / 190 ).

اس بنا پر احتياط يہى ہے كہ آپ بغير كسى شرط پر بيوى سے رجوع كريں، اور پھر بعد ميں اسے طلاق يا اپنے حق مبيت اور وطئ كى دستبردارى ميں اختيار دے ديں.

دوم:

جمہور علماء كرام كے ہاں رجوع كرنے ميں گواہ بنانا مستحب ہے واجب نہيں.

مزيد آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 113 ) كا مطالعہ كريں.

اس مسئلہ ميں نظريہ كے اعتبار سے مندرجہ بالا فيصلہ ہے ليكن عملى طور پر ہم آپ سے يہى كہيں گے كہ آپ دونوں صلح كرنے كى كوشش كريں، اور اتحاد و اتفاق كے ساتھ اكٹھے رہيں اور حتى الامكان ايك دوسرے سے درگزر كرنے كى كوشش كريں، تا كہ بغير اختلافات و مشكلات كے ايك نئى زندگى شروع كر سكيں.

پھر اگر عورت چھوٹى عمر كى ہو تو اس كے ليے مبيت اور وطئ كے حق سے دستبردار ہونے كى شرط ركھنا صحيح نہيں ہوگا كيونكہ اسے تو عفت و عصمت دركار ہے اور اس كے ليے اس كا حق مبيت اور وطئ ضرورى ادا كرنا چاہيے، كيونكہ يہ ايسا جوش والا معاملہ ہے جس كا كوئى انسان انكار نہيں كر سكتا.

ايك نوجوان عورت كے ليے اس طرح كى شرط بہت مشكل ہوگى، اور ہو سكتا ہے اس كا انجام بھى اچھا نہ ہو، اور اس كا سبب بھى خود خاوند بن جائے.

اس ليے ہمارى تو آپ كو يہى نصيحت ہے كہ آپ اس سلسلہ ميں اپنى بيوى كے سے بڑے تحمل مزاج كے ساتھ بات چيت كريں، اور اختلافات كو بھلا كر ختم كريں تا كہ آپ كے مابين محبت و مودت اور الفت قائم ہو اور آپ كى ازدواجى زندگى بہتر طريقہ سے بسر ہو سكے.

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب