الحمد للہ.
صحیح نماز کیلئے نیت شرط ہے، چنانچہ نیت کے بغیر نماز درست نہیں ہے، کیونکہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بلاشبہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کیلئے
وہی ہے جسکی اس نے نیت کی) اور یہاں "نیت" کا معنی : "ارادہ" ہےاور ارادہ دل میں ہوتا
ہے" انتہی
"المغنی" (1/287)
یہ جائز ہے کہ نیت تکبیرِ تحریمہ کیساتھ ہو، اور تکبیر سے پہلے بھی ہوسکتی ہے، حتی
کہ بعض علمائے کرام نے اس بات کو بھی جائز قرار دیا ہے جب تک نیت توڑی نہ جائے تو
نماز اور نیت کے درمیان لمبا فاصلہ آجانے پر بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
دیکھیں: "الموسوعۃ الفقهيۃ" (13/219)
اور مرداوی اپنی کتاب: "الإنصاف" (2/23) میں کہتے ہیں:
"دیگر علمائے کرام نے کہا ہے کہ: کافی پہلے بھی نیت کی جاسکتی ہے، [بشرطیکہ] درمیان
میں نیت توڑی نہ جائے۔ چنانچہ ابو طالب وغیرہ نے [امام احمد سے]نقل کیا ہےکہ: "اگر
اپنے گھر سے نماز کیلئے نکلے تو [اسکا نکلناہی] نیت ہے، آپ کیا سمجھتے ہو کہ وہ تکبیر
نماز کے ارادے کے بغیر ہی کہہ دےگا!!؟" خرقی کی گفتگو بھی اسی بات کی متقاضی ہے،
اسی کو آمدی، اور شیخ تقی الدین نے "شرح العمدۃ" میں اختیار کیا ہے"انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"یہی قول صحیح ترین ہے؛ کیونکہ نیت حکماً اسکے ساتھ منسلک ہی رہتی ہے جب تک نیت
توڑی نہ جائے، چنانچہ یہ آدمی جب آذان ہوئی تو اس نے کھڑے ہوکر وضو کیا تا کہ نماز
پڑھے، پھر اس کے ذہن سے نیت کچھ دور چلی گئی[نماز کی نیت توڑی نہیں]، پھر جب نماز
کیلئے اقامت کہی گئی تو یہ شخص تجدید نیت کے بغیر ہی نماز شروع کردیتا ہے تو اسکی
نماز صحیح ہوگی؛ کیونکہ اس نے ابھی اپنی پہلی نیت توڑی نہیں ہے، تو نماز کی نیت
حکمی طور پر اسکے کاموں کیساتھ باقی رہی؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
(بلاشبہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے)عام ہے، اور اس شخص نے نماز پڑھنے کی نیت
کی تھی، اور اس کی نیت پر کوئی ایسی چیز مؤثر نہیں ہوئی جس سے اسکی سابقہ نیت ٹوٹ
جائے"انتہی
"الشرح الممتع" (2/296)
واللہ اعلم.