اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

نصرانى لڑكى مسلمان ہوچكى ہے ليكن اسلام كا اعلان نہيں اس كى شادى نصرانى سے كرنا چاہتے ہيں

165167

تاریخ اشاعت : 24-11-2013

مشاہدات : 4512

سوال

ميرى ايك عيسائى سہيلى ہے ليكن اللہ كے فضل سے وہ دين اسلام قبول كر كے اب كئى برس سے نماز روزہ كى ادائيگى كر رہى ہے، اور اس كے خاندان والوں خاص كر والدہ كو بھى علم نہيں، مشكل يہ درپيش ہے كہ لڑكى كا و الد اصل ميں مسلمان تھا، ليكن اپنے گھر والوں سے عليحدہ ہو كر اس نے خفيہ طور پر عيسائيت قبول كر كے ايك نصرانى لڑكى سے شادى كى اس كى اولاد ميں لڑكے اور لڑكياں شامل ہيں.
ماں اور باپ نے اپنى اولاد كى معلومات ميں ان كے دادا اور خاندان كا لقب بھى تبديل كر ليا تا كہ نام عيسائى بن جائيں، اس ليے كہ باب كا حقيقى نام اسلام پر دلالت كرتا تھا جب لڑكى بڑى ہوئى اور حقيقت حال كا علم ہوا كہ وہ تو اصل ميں مسلمان تھى، اس طرح اس نے پورے طور پر مطمئن ہو كر دين اسلام قبول كر ليا اور نماز روزہ اور قرآن مجيد كى تلاوت كى پابندى كرنے لگى.
اب وہ ازہر يونيورسٹى ميں اپنے مسلمان ہونے كا اعلان كر كے ايك مسلمان نوجوان سے شادى كرنا چاہتى ہے، ليكن اس لڑكى كى والدہ ايسا نہيں چاہتى، بلكہ وہ اسے بائيكاٹ كى دھمكى دے رہى ہے، اور ماں بيمار ہے ہو سكتا ہے يہ اس كے ليے اتنا شديد صدمہ موت كا باعث ہى بن جائے، اور اس طرح بيٹى اس كى ذمہ دار ٹھرائى جائے، ماں كہتى ہے كہ وہ اصلا عيسائى ہے اور اس كى معلومات اس پر دليل بھى ہيں.
اس لڑكى كا والد كچھ عرصہ سے نماز ادا كرنے لگا ہے وہ كہتا ہے اس نے ماضى ميں جو كچھ كيا اس پر شرمندہ ہے، اس كے كہنے كے مطابق وہ دين اسلام كے اعلان ميں بيٹى كى مدد اس ليے نہيں كر سكتا كہ اس طرح اسے ذلت اٹھانى پڑيگى، لڑكى كى والدہ عيسائى نوجوان سے اس كى شادى كرنا چاہتى ہے تا كہ لڑكى كے ليے اسلام كى راہ ہى بند ہو جائے، ماں كہتى ہے كہ اگر تم نے اسلام قبول كيا تو وہ سارى زندگى بائيكاٹ ركھےگى اور اسے گھر سے بھى نكال دےگى.
برائے مہربانى يہ بتائيں كہ بچى كو كيا كرنا چاہيے تا كہ وہ اپنا دين بھى محفوظ ركھے اور ماں كى پكڑ اور بائيكاٹ سے بھى بچ جائے ؟
اور كيا اگر وہ والدہ كے دباؤ ميں آ كر اس عيسائى لڑكے سے شادى كر لے تا كہ صدمہ سے ماں كى موت كے گناہ كى ذمہ دار نہ ٹھرے تو كيا گنہگار ہوگى يا نہيں ؟
ميں نے يہ سارا قصہ آپ كو بيان اس ليے كيا ہے كہ ميرى سہيلى نے بطور امانت آپ تك يہ قصہ نقل كرنے كا كہا تھا اور اس ليے كہ وہ آپنى آخرت كامياب بنانا چاہتى ہے، وہ دين اسلام بہت زيادہ پسند كرتى ہے اور اس پر راضى بھى ہے، اور نصرانيت كى حالت ميں مرنا نہيں چاہتى، اور يہ معلوم كرنا چاہتى ہے كہ اس معاملہ ميں دين اسلام كى رائے كيا ہے اور اسے اللہ تعالى اور رسول كريم كو راضى كرنے كے ليے كيا كرنا ہو گا ؟
اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہم اللہ تعالى كا شكر اور اس كى تعريف كرتے ہيں جس نے ہمارى اس بہن كو دين اسلام قبول كرنے اور نماز روزہ كى پابندى كى توفيق نصيب فرمائى، اللہ تعالى سے دعا گو ہيں كہ وہ اس پر اپنا احسان كرتے ہوئے اسے ثابت قدم ركھے اور اس كے گھر والوں اور رشتہ داروں كو بھى ہدايت كى توفيق نصيب فرمائے.

دوم:

كسى مسلمان عورت كے ليے نصرانى مرد سے شادى كرنا جائز نہيں، اور اسے نكاح شمار نہيں كيا جائيگا، بلكہ يہ زنا و فحاشى شمار ہوگى، اس ليے اس لڑكى كو ہر طرح اور ہر و ممكن طريقہ سے انكار كر دينا چاہيے، اور جتنى جلدى ہو سكے وہ سركارى طور پر دين اسلام كا اعلان كر كے اپنے كاغذات بنو لے، اور اس كے ليے تجربہ كار اشخاص اور وكيل سے معاونت حاصل كرے.

اگر لڑكى كے اسلام قبول كرنے كے اعلان كے نتيجہ ميں ماں كى جانب سے بائيكاٹ ہو يا پھر ماں صدمہ سے بيمار ہو جائے يا مر جائے تو لڑكى پر كوئى گناہ اور نہيں كيونكہ اس نے وہ عمل كيا ہے جو لڑكى پر واجب تھا، اور اس نے ہر ايك كى اطاعت چھوڑ كر اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت كى ہے.

يہ مسئلہ بہت عظيم اور بڑى اہميت كا حامل ہے يہ مسئلہ تو كفر و ايمان كا ہے، اس ليے اس ميں شفقت و نرمى كى كوئى گنجائش نہيں، اور اميد ہے كہ لڑكى كے قبول اسلام ميں اس كى ماں باپ كے ليے بھى تمہيد ہو سكتى ہے اور ان راہ ہموار ہونے كا باعث بن سكتى ہے چاہے وہ كچھ دير بعد ہى ہو.

حاصل يہ ہوا كہ: اس لڑكى كا دين اسلام پر ثابت قدم رہنا فرض و واجب ہے، اس كے علاوہ تو دين اسلام سے ارتداد اور خسارہ كے علاوہ كچھ نہيں، اس كے ليے كسى بھى حالت ميں نصرانى شخص سے شادى كرنا جائز نہيں، اسے جتنا جلدى ہو سكے عام عادت كے مطابق كاروائى كر كے سركارى طور پر اپنے اسلام كا ثبوت مہيا كر لينا چاہيے، اور پھر وہ دين اسلام قبول كرنے كى خبر كو بڑے آرام اور نرم انداز ميں آہستہ آہستہ اپنے گھر والوں كو بتانے كى كوشش كرے، اور اس كے ليے ايسے معاملات ميں تجربہ كار اشخاص سے معاونت بھى حاصل كرے اور اگر دين اسلام قبول كرنے كے اعلان كے نتيجہ ميں خاندان والوں كا بائيكاٹ ہو، يا پھر وہ صدمے سے بيمار ہو جائيں تو لڑكى پر ا سكا كوئى گناہ نہيں ہوگا.

ہمارے خيال كے مطابق تو اب حالات اس معاملہ ميں پہلے كى بنسبت بہت زيادہ ممد و معاون ہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ لڑكى كے خاندان والوں كو ہدايت نصيب فرما كر لڑكى كى آنكھوں كو ٹھنڈا كرے.

يہاں يہ تنبيہ كرنا چاہتے ہيں كہ آپ كے ليے يہ كہنا صحيح تھا كہ: ميرى سہيلى مسيحى تھى .. كيونكہ اب تو وہ مسلمان ہو چكى ہے، اسلام قبول كرنے كا اعلان مؤخر كرنے كا يہ معنى نہيں كہ وہ مسلمان ہى نہيں ہوئى، كيونكہ جو يقينى طور پر كلمہ شہادت پڑھ لے وہ اسلام ميں داخل ہو جاتا ہے اور اس سے نماز روزہ دوسرے فرائض كى پابندى كرنے كا مطالبہ كيا جائيگا، اور اس لڑكى نے الحمد للہ ان فرائض كى پابندى كرنا شروع كر دى ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب