الحمد للہ.
عقد نكاح ميں وكيل بنانا جائز ہے، لہذا اگر كوئى شخص اپنے گھر والوں كو عقد نكاح ميں اپنا وكيل بنائے يا پھر كسى علاقے اور ملك ميں يہ عادت ہو كہ گھر والے اپنے بيٹے كى جانب سے نكاح ميں وكيل بنتے ہوں، اور اس ميں بيٹے كى رضامندى اور علم شامل ہو تو عقد نكاح صحيح ہے، چاہے دولہا عقد نكاح كى مجلس ميں شامل نہ بھى ہو.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عقد نكاح ميں ايجاب و قبول كے ليے وكيل بنانا جائز ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمرو بن اميۃ اور ابو رافع كو اپنا نكاح قبول كرنے ميں وكيل بنايا تھا.
اور اس ليے بھى كہ اس كى ضرورت بھى ہے كيونكہ ہو سكتا ہے كسى دوسرے اور دور كے علاقے ميں شادى كى جائے جہاں كا سفر كرنا ممكن نہ ہو، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ام حبيبہ رضى اللہ تعالى عنہ سے جب شادى كى تو ام حبيبہ حبشہ ميں تھيں " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 5 / 53 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
اگر بيٹا راضى ہو تو كيا باپ اپنے بيٹے كى جانب سے عقد نكاح قبول كر سكتا ہے، اور اسى طرح لڑكى بھى اس پر راضى ہو، اور رضامندى پر دو گواہ بھى ہوں ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" اگر بالغ بيٹا اپنے باپ كو عقد نكاح ميں وكيل بناتا ہے تو باپ كے ليے اپنے بيٹے كا براہ راست نكاح كرنا جائز ہے، جب اس ميں نكاح كے اركان اور شروط مكمل ہوں اور كوئى مانع نہ پايا جاتا ہو تو نكاح صحيح ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعلى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء.
الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 176 ).
واللہ اعلم.