الحمد للہ.
اول:
سب سے پہلے نظر بد [جسے عربی میں "العین" کہتے ہیں۔] اور حسد کا مفہوم اور دونوں میں فرق واضح کرنا ضروری ہے ، اس لیے ہم کہتے ہیں:
العین یعنی نظر بد: عربی زبان میں " عان يَعين " سے ماخوذ ہے، جو کسی کو نظر بد لگانے پر بولا جاتا ہے۔ نظر بد کی حقیقت یہ ہے کہ: نظر لگانے والا شخص کسی چیز کو بہت اچھا سمجھتا ہے، اور پھر اس کے نفس کی خبیث کیفیت اس چیز کے پیچھے پڑ جاتی ہے، اور پھر اپنی زہریلی خباثت اس پر ڈالنے کے لیے نظروں کی مدد حاصل کرتی ہے۔
ماخوذ از: دائمی فتاوی کمیٹی : ( 1 / 271 )
حسد: اپنے بھائی کے پاس موجود کسی ایسی نعمت کے زائل ہونے کی تمنا کرنا جو حاسد کے پاس نہیں۔
علامہ راغب اصفہانی کہتے ہیں:
"حسد: کسی نعمت کے مستحق سے اس کے زائل ہونے کی تمنا کرنا، بسا اوقات حسد میں محض تمنا ہی نہیں بلکہ اسے زائل کرنے کے لیے کوشش بھی شامل ہوتی ہے۔" ختم شد
المفردات في غريب القرآن" (118)
حسد اور نظر بد میں فرق:
1-حسد ، نظر بد سے عام چیز ہے، چنانچہ ہر نظر بد لگانے والا حاسد ہے، جبکہ ہر حاسد نظر بد لگانے والا نہیں ہوتا۔
2- نظر بد لگانے والا حاسد سے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔
3- حاسد کبھی کسی ایسی چیز سے بھی حسد کر سکتا ہے جو اس نے دیکھی ہی نہیں، بلکہ کسی چیز کے رونما ہونے سے پہلے بھی حسد ہو سکتا ہے، جبکہ نظر بد لگانے والا شخص صرف موجودہ چیز کو دیکھ کر ہی نظر لگاتا ہے، رونما ہونے سے پہلے نہیں۔
4- حسد کی بنیاد دل میں پیدا ہونے والی جلن اور متعلقہ شخص کو حاصل ہونے والی نعمتوں کو زیادہ سمجھنا ہوتا ہے، جبکہ نظر بد میں بد نظری یا روح کی خباثت کار فرما ہوتی ہے۔
5- حسد کسی ایسی چیز کو نقصان نہیں پہنچاتا جس کا نقصان حاسد کو ناگوار ہو، جیسے کہ انسان کا ذاتی مال اور اولاد وغیرہ، جبکہ نظر بد کسی ایسی چیز کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے جسے نقصان پہنچنا عائن شخص کو کو ناگوار ہو، جیسے اولاد اور دولت۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مطلب یہ ہے کہ: عائن شخص مخصوص قسم کا حاسد ہوتا ہے، اور یہ حاسد سے زیادہ نقصان دہ ہے، اسی لیے -واللہ اعلم- سورت میں حاسد کا ذکر آیا ہے، عائن کا نہیں ہے؛ کیونکہ حاسد میں عائن بھی آ جاتا ہے، اس لیے ہر عائن کا حاسد ہونا لازمی ہے، جبکہ ہر حاسد کا عائن ہونا لازمی نہیں ہے، لہذا اگر کوئی شخص حسد کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہے تو اس میں نظر بد سے بھی پناہ شامل ہو گئی ہے، یہ در حقیقت قرآن کریم کے شمول، اعجاز اور بلاغت کی دلیل ہے۔ حسد کی حقیقت یہ ہے کہ: کسی انسان کو ملنے والی اللہ تعالی کی نعمت سے بغض رکھنا اور اس کے زائل ہونے کی تمنا کرنا۔" ختم شد
بدائع الفوائد : ( 2 / 458 )
دوم:
ان دونوں کا حکم یقینی طور پر حرمت کا ہے۔
الف-چنانچہ حسد کے حرام ہونے کی دلیل سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بیع نجش نہ کرو، باہمی بغض مت رکھو، اور ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو) صحیح مسلم: (2559)
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (ایک دوسرے سے حسد نہ کرو) باہمی حسد کے ساتھ ساتھ اپنے ظاہر اور عموم کی وجہ سے ہر چیز میں حسد سے ممانعت کا تقاضا کرتا ہے، تاہم میرے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک اور فرمان سے یہ حسد مخصوص ہو گیا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (حسد صرف دو چیزوں میں ہے: ایک شخص کو اللہ تعالی نے قرآن کی دولت سے نوازا اور وہ دن رات نماز میں قرآن پڑھ کر قیام کرتا ہے۔ اور دوسرا شخص وہ ہے جسے اللہ تعالی نے مال عطا کیا اور وہ اسے دن اور رات خرچ کرتا ہے)اس روایت کو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اسی طرح بیان کیا ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: " التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد " ( 6 / 118 )
ب- جبکہ نظر بد حرام ہونے کی دلیل کا تعلق لوگوں کو نقصان پہنچانے کی حرمت سے ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً
ترجمہ: اور وہ لوگ جو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ان کے کسی جرم کے بغیر تکلیف دیتے ہیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا ہے۔ [الاحزاب: 58]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (نہ خود کو نقصان پہنچاؤ، اور نہ ہی دوسروں کو نقصان پہنچاؤ) ابن ماجہ: (2314) اس حدیث کو نووی، ابن الصلاح اور ابن رجب وغیرہ نے حسن قرار دیا ہے جیسے کہ " جامع العلوم والحكم " ( ص 304 ) میں ہے اور البانی نے صحیح ابن ماجہ میں اسے حسن کہا ہے۔
اس حدیث کی تشریح میں دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر مکلف شخص کو منع کیا کہ اپنے آپ کو نقصان پہنچائے یا کسی دوسرے کو نقصان پہنچائے، چنانچہ اس حدیث میں انسان کو اپنے آپ پر اور دوسروں پر زیادتی کرنے سے روکا گیا ہے۔"
شیخ عبد العزیز بن باز، الشیخ عبد الرزاق عفیفی، الشیخ عبد اللہ بن غدیان
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 4 / 400 )
سوم:
کوئی شخص عمداً لوگوں کو نظر بد لگاتا ہے، بلکہ انہیں نظر بد لگانے کی دھمکی بھی دیتا ہے تو یقیناً گناہ گار ہے، سرکاری طور پر ایسے نظر بد لگانے والے افراد کو نظر بند کرنا چاہیے، اور لوگوں کے ساتھ ملنے سے روکا جائے، اگر غریب ہے تو اس کا خرچہ حکومت اٹھائے، یہاں تک کہ وہ توبہ کر لے، یا اپنی طبعی موت مر جائے اور لوگ اس کے شر سے محفوظ ہو سکیں۔
شیخ عبد اللہ بن جبرین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ہم نے سنا ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس نظر بد لگانے کی صلاحیت ہوتی ہے، وہ جسے چاہیں اور جب چاہیں نظر لگا سکتے ہیں، تو کیا یہ صحیح ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"یقیناً نظر بد اثر رکھتی ہے، اور یہ حقیقتِ واقعہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (نظر بد اثر رکھتی ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت لے سکتی ہو تی تو وہ نظر بد ہی ہوتی) صحیح مسلم، ایک اور حدیث میں ہے کہ: (نظر بد آدمی کو قبر میں اور اونٹ کو ہانڈی میں پہنچا دیتی ہے۔) اس حدیث کو ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں بیان کیا ہے، نیز البانی نے اسے سلسلہ صحیحہ: (1249) میں حسن قرار دیا ہے۔ یعنی مطلب یہ ہے کہ نظر بد سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ ہوتا کیسے ہے؟ یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔
اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ نظر بد کچھ لوگوں میں ہوتی ہے، عائن شخص نقصان پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے تو نظر لگ جاتی ہے، اور کبھی عائن شخص کا ارادہ بھی نہیں ہوتا پھر بھی نظر لگ جاتی ہے، جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نظر بد لگانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ کچھ بھی نہیں کر پاتے۔
اللہ تعالی نے عائن شخص کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے ؛ کیونکہ یہ بھی وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ترجمہ: اور حاسد کے شر سے جب حسد کرے۔ [الفلق: 5] تو حاسد کے شر سے پناہ مانگنے پر اللہ تعالی کی طرف سے تحفظ اور اللہ تعالی کی نگہبانی حاصل ہو گی۔ واللہ اعلم" ختم شد
" الفتاوى الذهبية في الرقى الشرعية "
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن بطال نے کچھ اہل علم سے نقل کیا ہے کہ: حکمران کو چاہیے کہ عائن شخص کا پتہ چل جائے تو اسے لوگوں میں نہ رہنے دے، اسے گھر میں ہی نظر بند کر دیا جائے، اور اگر غریب ہو تو اس کے کھانے پینے کا بھی بندوبست کرے؛ کیونکہ اس شخص کا نقصان کوڑھ والے شخص سے بھی خطرناک ہے ، اور کوڑھ والے شخص کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنے سے منع فرمایا ہے، جیسے کہ پہلے اس کی وضاحت ہو چکی ہے، اسی طرح اس شخص کا خطرہ لہسن سے بھی زیادہ ہے کہ شریعت نے لہسن کھا کر نماز با جماعت میں آنے سے منع فرمایا ہے۔
امام نووی کہتے ہیں: یہی بات درست ہے، اس سے متصادم رائے کسی کی بھی صراحت کے ساتھ منقول نہیں ہے۔" ختم شد
" فتح الباري " ( 10 / 205 )
اسی طرح " الموسوعة الفقهية " ( 31 / 123 ) میں ہے کہ:
"امام ابن بطال کے موقف کے مطابق فقہی مذاہب میں بہت سی نصوص موجود ہیں کہ حکمران عائن شخص کا پتہ چل جائے تو اسے لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے روک دے ، بلکہ جبری طور پر اسے گھر میں نظر بند کر دے؛ کیونکہ اس کا خطرہ کوڑھ کے مریض اور پیاز و لہسن کھانے والوں کے نقصان سے زیادہ ہے کہ انہیں بھی مسجد میں جانے سے منع کیا جاتا ہے، چنانچہ اگر عائن شخص غریب ہے تو بیت المال سے اس کی کفالت کی جائے گی؛ کیونکہ اسے گھر میں روکنے میں مصلحت ہے اور مسلمانوں کے لیے اس کے شر سے تحفظ بھی ۔" ختم شد
اسی طرح آپ صفحہ نمبر: ( 16 / 229 ) کا بھی مطالعہ کریں۔
چہارم:
صحیح موقف ہے کہ عمداً نظر بد لگانے والا شخص نقصان کا ضامن ہو گا، بلکہ اگر نظر بد کی وجہ سے وہ کسی کو قتل کر دے تو اسے بھی قصاصاً قتل کیا جائے گا۔
جیسے کہ علامہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر عائن شخص کسی چیز کو تلف کر دے تو اس کا ضامن ہو گا، اور اگر قتل کر دے تو اس پر قصاص یا دیت ہو گی ، اگر نظر لگانا اس کی عادت بن جائے اور بار بار نظر لگائے تو وہ اس صورت میں اس کا حکم -جادو گر کو کافر ہونے کی وجہ سے قتل نہ کرنے والے اہل علم کے ہاں- جادو گر والا ہے" ختم شد
دیکھیں: " الموسوعة الفقهية " ( 17 / 276 )
شرف الدین حجاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"معیان: اس شخص کو کہتے ہیں جو نظربد لگا کر قتل کر دے۔ " حواشي الفروع " میں ابن نصراللہ کہتے ہیں: مناسب ہے کہ اسے ایسے جادوگر کے حکم میں رکھا جائے جو عام طور پر جادو کر کے قتل کر دیتا ہے، چنانچہ اگر اس کی نظر بد قتل کر سکتی ہو اور عائن اپنے اختیار سے قتل کرتا ہو تو اس سے قصاص لینا واجب ہے۔ اور اگر قتل کا ارادہ کیے بغیر قتل ہو جاتا ہے تو ایسے میں قتل خطا کا مرتکب ہے ، چنانچہ قتل خطا کی سزا اس پر لاگو ہو گی، اسی طرح جو چیز نظر لگا کر تلف کر دے تو اس کا ضامن ہو گا، الا کہ اس کے ارادے کے بغیر ہی چیز تلف ہو جائے تو پھر وہ ضامن نہیں ہو گا۔ " ختم شد
"الإقناع في فقه الإمام أحمد بن حنبل " ( 4 / 166 )
واللہ اعلم