الحمد للہ.
کوئی آدمی کسی سے مکان خریدتے ہوئے بائع پر شرط یہ رکھے کہ وہ اس وقت تک مکان کی قیمت نہیں دے گا جب تک وہ اس گھر کو خالی نہیں کر دیتا، تو یہ شرط لگانا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور اس قیمت کی زکاۃ کے بارے میں یہ ہے کہ یہ مشتری پر لازم ہو گی؛ کیونکہ قیمت کی رقم اب بھی اپنے مالک کے قبضے میں ہے، اور اس کی ملکیت بھی کامل ہے؛ کیونکہ وہ جیسے چاہے اور جب چاہے ان میں تصرف کر سکتا ہے۔
جبکہ اس رقم کا حق بائع کے لیے ابھی تک ثابت نہیں ہوا، وہ تو ابھی تک مشتری کے ذمے میں ہے، اس رقم پر بائع کا حق نہیں ہے۔
اور اہل علم نے زکاۃ کے واجب ہونے کے لیے یہ شرط بیان کی ہے کہ زکاۃ کے نصاب پر ملکیت کامل ہو۔
جیسے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کامل ملکیت کا مطلب یہ ہے کہ مال مالک کے قبضے میں ہو، چنانچہ جو مال قبضے میں نہیں ہے اور اس کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے تو اس میں کامل ملکیت نہیں ہے، اس لیے اس پر زکاۃ بھی نہیں ہے۔
اس کے لیے مثال مدت پوری ہونے سے قبل گھر کے کرائے کی دی جاتی ہے؛ کیونکہ کرایہ ابھی مکمل طور پر ملکیت میں نہیں آیا؛کیونکہ ممکن ہے کہ مکان گر جائے اور کرائے کا معاہدہ ہی منسوخ ہو جائے۔" ختم شد
"الشرح الممتع"(6/17)
اور سوال میں مذکور صورت میں رقم کی مکمل ملکیت مالک کے ہاتھ میں ہے، اس لیے اس پر زکاۃ واجب ہو گی۔
واللہ اعلم