الحمد للہ.
اول:
مسلمان كے ليےفى ذاتہ مباح ويب سائٹ ڈيزائن كرنے كا كام كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اسے چاہيے كہ وہ ايسى ويب سائٹ بنانے سے اجتناب كرے جو حرام كام پرمشتمل ہو مثلا بنكوں كى ويب سائٹ، اور شراب اور فلموں كى ويب سائٹ اور اسى طرح مرد و عورت كے مابين بات چيت اور چيٹ كرنے كے ليے.
اصل ميں حرام تو وہى ہے جو حرام ہو كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم گناہ اور زيادتى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، يقينا اللہ تعالى بڑى شديد سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).
اور اگر وہ ويب سائٹ اصلا كسى حرام كام كے ليے نہيں بلكہ اصل ميں تو مباح اور جائز كام كے ليے بنائى گئى ہے ليكن ہو سكتا ہے وہ كچھ حرام پر بھى مشتمل ہو، مثلا وہ كمپنى جس كے بارہ ميں آپ دريافت كر رہے ہيں اس كے ليے آپ دو شرط كے ساتھ ويب سائٹ ڈيزائن كر سكتے ہيں:
پہلى شرط:
اس كمپنى كا اكثر اور غالب طور پر كام مباح اور جائز ہو اور اس كے اكثر كام اور امور حرام كام پر مشتمل نہ ہوں.
دوسرى شرط:
آپ كوئى ايسا كام نہ كريں جو اس حرام كام كے ليے مخصوص ہو.
اور خاص كر اس كمپنى كے بارہ ميں جس كے متعلق آپ دريافت كر رہے ہيں اس كى ويب سائٹ اس شرط پر بنانى اور ڈيزائن كرنى جائز ہوگى جبكہ اس كمپنى كا اكثر كام سودى امور پر مشتمل نہ ہو، اور آپ اپنى اس ڈيزائننگ ميں كوئى ايسى ونڈو اور آپش نہ ركھيں جو اس حرام كام كے ليے مخصوص كى گئى ہو يا پھر اس كى راہنمائى كرتى ہو.
مزيد تفصيل ديكھنےكے ليے آپ سوال نمبر ( 22756 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
آپ كے چچا زاد كے بارہ ميں عرض ہے كہ آپ جو كام نہيں كر رہے اس كے بارہ ميں اسے شرعى حكم بتانے ميں اسے دين اسلام كى دعوت دينا ہے، اور آپ كا اس حرام كام كے ليے ويب سائٹ ڈيزائن كرنا دين اسلام كى خراب صورت پيش كرنے كے مترادف ہوگى.
كيونكہ مسلمان شخص كے ليے كسى كافر كو راضى كرنے كے ليے كوئى حرام كام كرنا جائز نہيں، بلكہ جب اس كافر كو علم ہوگا كہ اس كا دين اسلام تو سود كو حرام قرار ديتا ہے اور آپ اس سود كےحصول كے ليے ويب سائٹ ڈيزائن كريں گے تو وہ كافر خود ديكھے كہ آپ اس اسلام كى مخالفت كر رہے ہيں.
اس ليے مسلمان شخص اللہ تعالى كو ناراض كر كے لوگوں كى خوشى و رضا حاصل كرنے سے اجتناب كرے، كيونكہ اس كے بہت زيادہ برے نتائج نكلتے ہيں.
امام ترمذى رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى حديث ذكر كى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" جس كسى نے بھى لوگوں كو ناراض كر كے اللہ تعالى كى رضا و خوشنودى حاصل كى اللہ تعالى اسے لوگوں سے كافى ہو جائيگا، اور جس كسى نے بھى اللہ تعالى كو ناراض كر كے لوگوں كى خوشى حاصل كى تو اللہ سبحانہ و تعالى اسے لوگوں كے سپرد كر ديتا ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2414 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور ابن حبان نے درج ذيل الفاظ سے روايت كيا ہے:
" جس كسى نے لوگوں كو ناراض كر كے اللہ كى خوشنودى حاصل كى تو اللہ تعالى اس سے راضى ہو جاتا ہے اور لوگوں كو بھى اس سے راضى كر ديتا ہے، اور جس كسى نے اللہ كو ناراض كر كے لوگوں كى خوشى مول لى تو اللہ تعالى اس پر ناراض ہو جاتا ہے اور لوگوں كو بھى اس پر ناراض كر ديتا ہے "
ابن حبان ( 1 / 501 ) ابن حبان نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور آپ يہ بات علم ميں ركھيں كہ حقيقى دعوت و تبليغ اور لوگوں كو حقيقتا دين كى ترغيب دينا يہ ہے كہ: آپ خود دين اسلام پر كاربند ہوں اور دين پر عمل كريں، ليكن يہ كہ آپ دوسروں كو تو يہ بتائيں كہ دين اسلام نے سود حرام كيا ہے اور پھر خود اس كا لين دين كريں اور اس ميں تعاون كريں تو يہ اللہ كى راہ ميں ركاوٹ ڈالنا اور ايك قسم كا اللہ كى راہ سے روكنا ہے.
اور لوگوں كو اللہ سبحانہ و تعالى كے دين سے متنفر كرنا ہے؛ اس طرح تو لوگ يہ كہيں گے كہ يہ شخص جس دين كى ہميں دعوت ديتا ہے اگر يہ حق ہوتا تو يہ خود اس پرعمل بھى كرتا، اگر يہ حق ہے تو يہ شخص خود اس پرعمل كيوں نہيں كرتا ؟!
واللہ اعلم.