جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

باپ مہر ادا كرنے سے عاجز ہو تو كيا بيٹا اپنے باپ كا مہر ادا كر سكتا ہے ؟

سوال

كچھ اسباب كى بنا پر ميرے والد صاحب ميرى والدہ كى ابھى تك مہر ادا نہيں كر سكے، اور اب والد صاحب كوئى كام كاج بھى نہيں كرتے كيونكہ ريٹائر ہو چكے ہيں، تو كيا ميں اپنے والد صاحب كو كچھ رقم دے سكتا ہوں تا كہ وہ ميرى والدہ كو مہر ادا كر ديں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

پہلى بات تو يہ ہے كہ مہر بيوى كا اپنے خاوند پر حق ہے جب خاوند بيوى كے ليے مہر مقرر كر دے اور پھر وہ مہر ادا كرنے پر قادر نہ ہو تو وہ باقى قرض كى طرح خاوند كے ذمہ قرض شمار ہوگا، ليكن اگر بيوى اپنى مرضى سے خاوند كو مہر معاف كر ديتى ہے تو پھر خاوند برى الذمہ ہو جائيگا، كيونكہ يہ عورت كا حق تھا اور اس نے اپنا حق ساقط كر ديا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم عورتوں كو ان كے مہر خوشدلى سے ادا كرو، پھر اگر وہ اس ميں سے كوئى چيز تمہارے ليے چھوڑنے پر دل سے خوش ہو جائيں تو اسے كھا لو، اس حال ميں كہ مزے دار خوشگوار ہے النساء ( 4 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب عورت مہر لينے كے بعد خاوند كو اپنا سارا يا مہر كا كچھ حصہ معاف كر دے تو اس كے ليے اپنے مال ميں ايسا كرنا جائز اور صحيح ہے، ہمارے علم كے مطابق تو اس ميں كوئى اختلاف نہيں ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

الا يہ كہ وہ اسے معاف كر ديں .

يعنى بيوياں معاف كر ديں.

اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

پھر اگر وہ اس ميں سے كوئى چيز تمہارے ليے چھوڑنے پر دل سے خوش ہو جائيں تو اسے كھا لو، اس حال ميں كہ مزے دار خوشگوار ہے النساء ( 4 ). ... انتہى

ماخوذ از: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 196 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا مہر قرض شمار ہوتا جس كى ادائيگى كرنا واجب ہے يا قرض شمار نہيں ہوتا ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" بيوى كے ليے جو مہر مقرر كيا گيا ہے وہ رخصتى و دخول يا وفات كى صورت ميں مكمل ادا كرنا واجب ہے، اور اگر دخول و رخصتى سے قبل عورت كو طلاق دى جائے تو مہر مقررہ كا نصف عورت كو ديا جائيگا.

دونوں حالتوں ميں ہى عورت كے ليے جو مہر واجب ہے وہ خاوند كے ذمہ قرض ہے اس كى ادائيگى واجب ہے، الا يہ كہ عورت اپنى رضامندى و خوشى سے سارا يا مہر كا كچھ حصہ معاف كر دے تو يہ ساقط ہو جائيگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر تم انہيں چھونے ( دخول و رخصتى ) سے پہلے طلاق دے دو اور تم ان كا مہر مقرر كر چكے ہو تو مقررہ مہر كا نصف انہيں ديا جائيگا، الا يہ كہ وہ عورتيں اسے معاف كر ديں، يا پھر وہ جس كے ہاتھ ميں نكاح كى گرہ ہے وہ معاف كر دے، اور تم معاف كر دو تو يہ تقوى كے زيادہ قريب ہے، اور تم آپس ميں احسان كرنا نہ بھولو، اور بے شك اللہ اس كو جو تم كر رہے خوب ديكھنے والا ہے البقرۃ ( 237 ).

اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى اس طرح ہے:

اور تم عورتوں كو ان كے مہر خوشدلى سے ادا كرو، پھر اگر وہ اس ميں سے كوئى چيز تمہارے ليے چھوڑنے پر دل سے خوش ہو جائيں تو اسے كھا لو، اس حال ميں كہ مزے دار خوشگوار ہے النساء ( 4 ). انتہى

مستقل فتوى اور علمى ريسرچ كميٹى

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن عبد الرحمن بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن سليمان بن منيع.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 57 ).

دوسرى بات يہ ہے كہ:

بيٹے كے ليے اپنے باپ كا قرض ادا كرنا جائز ہے، چاہے وہ مہر ہو يا قرض... چاہے والد كام كاج سے عاجز ہو يا غير عاجز ليكن اگر عاجز ہو تو پھر اس حالت ميں بيٹى كے اس كا قرض زكاۃ سے بھى ادا كرنا جائز ہوگا.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 39175 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب