الحمد للہ.
اول:
فوت شدہ روزوں کی قضا یا شوال کے روزے رکھنے کے فوری بعد نفل روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ نفل روزوں کی ترغیب دینے کے متعلق کسی بھی نص میں نفل اور فرض روزوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کا حکم نہیں ہے۔
دوم:
اگر مسلسل روزے رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ شوال کے چھ روزے رکھ کر شوال مکمل ہونے تک پورے مہینے کے روزے رکھیں، یا مخصوص دنوں کے نفلی روزے رکھیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس بات کا خیال رہے کہ آپ دونوں میں سے کسی کو روزے رکھنے کی وجہ سے نقصان نہ ہو یا کسی کے حقوق تلف نہ ہوں۔
اور اگرچہ بہتر یہی ہے کہ ماہ رمضان کے علاوہ کسی بھی مہینے کے مکمل روزے نہ رکھیں جائیں بلکہ کچھ ایام بغیر روزہ رکھے بھی گزاریں؛ جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ بھی تھی۔
چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نفل روزے رکھنا شروع کرتے تھے ہم سمجھتے کہ اب روزے نہیں چھوڑیں گے، اور جب روزے چھوڑتے تو ہم سمجھتے کہ اب نہیں رکھیں گے، میں نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل ماہ کے روزے رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نہیں دیکھا، اور ماہ شعبان سے زیادہ آپ کسی مہینے میں روزے نہیں رکھتے تھے)
بخاری: (1969)
شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“کئی دنوں کے مسلسل نفل روزے رکھنا پھر مسلسل کئی دن تک روزے نہ رکھنا جائز ہے؛ اس کی دلیل سوال میں بیان ہو چکی ہے؛ کیونکہ یہ نفل روزے ہیں جو کہ مستحب ہوتے ہیں” انتہی
” فتاوى الشیخ ابن جبرین”
اور اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ آپ آئندہ سال تک عید اور ایام تشریق کے علاوہ سارے دنوں کے روزے رکھیں تو یہ علمائے کرام کے ہاں “صوم الدھر” کے نام سے مشہور ہے، علمائے کرام کے صحیح موقف کے مطابق اس کا حکم یہ ہے کہ یہ مکروہ ہے۔
واللہ اعلم.