الحمد للہ.
اول:
جمہور اہل علم بلوغت سے قبل چھوٹی بچی کیساتھ نکاح کو جائز قرار دیتے ہیں، اس بارے میں بہت سے علمائے کرام نے اجماع بھی نقل کیا ہے، اور اس اجماع کی مخالفت میں صرف ابن شبرمہ اور عثمان البتی رحمہما اللہ کی رائے ہے، جمہور کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ
ترجمہ: تمہاری بیویوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں اور تمہیں ان کی عدت کے بارے میں تردد ہے ، ان کی عدت تین ماہ ہے اور جنہیں ابھی تک حیض آیا ہی نہیں ۔[الطلاق : 4]
یہ آیت اس طرح دلیل بنتی ہے کہ : اللہ تعالی نے یہاں پر حیض آنے سے قبل طلاق پانے والی بچی کی عدت ذکر کی ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بالغ نہیں ہے، اور اس وقت تک طلاق یا فسخ نکاح نہیں ہوتا جب تک عقد نکاح درست نہ ہو۔
جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ اگر بیوی بالغ ہو جائے تو اسے [خاوند کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا]کوئی اختیار نہیں دیا جائے گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے 7 سال کی عمر میں شادی کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بالغ ہونے پر کوئی اختیار نہیں دیا۔
دوم:
یہاں کچھ باتوں کو ذہن نشین رکھنا چاہیے:
1- چھوٹی بچی کا بچپن میں نکاح کرنے کا اختیار صرف والد کو ہے، کسی اور کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے، یہی جمہور اہل علم کا موقف ہے، اور یہی درست ہے، لہذا دادا کو یہ اختیار دینے والوں کا موقف درست نہیں ہے، اسی طرح ان کا موقف بھی درست نہیں ہے جو والد کے علاوہ دیگر اولیاء کو بچپن میں شادی کرنے کی اجازت دیتے ہیں لیکن لڑکی کو بالغ ہونے پر اختیار کے بھی قائل ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"والد کے سوا کوئی بھی کسی بچی کا نکاح پچپن میں نہیں کر سکتا چاہے بچی کنواری ہو یا بچپن میں ہی بیوہ ہونے والی کوئی لڑکی ، اسی طرح چاہے اس کی اجازت اس میں شامل ہو یا نہ ہو، اسی طرح ان دونوں [کنواری یا بیوہ بچی]میں سے کسی ایک کا نکاح کر دیا جائے اور پھر بالغ ہونے کی صورت میں اختیار دینا بھی غلط ہے، چنانچہ اگر کسی بچی کا نکاح باپ کے علاوہ کسی اور نے کر دیا تو نکاح فسخ ہوگا، ایسے نکاح کی وجہ سے بننے والے میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث نہیں بنیں گے، اور نہ ہی طلاق واقع ہوگی، بلکہ اس نکاح کا حکم تمام امور میں فاسد نکاح والا ہوگا، لہذا طلاق، وراثت کچھ بھی اس پر لاگو نہیں ہوگا" انتہی
" الأم " ( 5 / 18 )
اور اگر یتیم بچی 9 سال کی ہو جائے تو بچی کی اجازت سے اس کی شادی کرنا جائز ہے، لیکن بالغ ہونے پر اسے اختیار نہیں دیا جائے گا، نیز 9 سال سے قبل اس کی شادی کرنا بھی درست نہیں ہوگا، امام احمد کے مذہب کے مطابق یہی مشہور ہے اور اسی کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے۔
2- یہ شادی بچی کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کی جائے بچی کے باپ یا کسی اور کے مفاد کو سامنے مت رکھا جائے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"معتبر مفاد کے بغیر ہی شادی کی صورت میں نکاح سرے سے ہوگا ہی نہیں، اس لیے حاکم کیلئے جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے کہ چھوٹی بچی اور اس کے خاوند میں جدائی ڈلوائے، جب تک بالغ ہونے کے بعد اس کی رضا مندی ثابت نہیں ہوتی تو کم سن بچی جب چاہے بھاگنے کا حق رکھتی ہے، چاہے بالغ ہو یا نہ ہو" انتہی
" وبل الغمام على شفاء الأوام " ( 2 / 33 )
3- چھوٹی بچی کیساتھ نکاح کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ خاوند کیساتھ اس کی رخصتی بھی کر دی جائے، لہذا رخصتی اسی وقت ہوگی جب جماع کے قابل ہو جائے۔
4- بلوغت کیساتھ جماع کا کوئی تعلق نہیں ہے، جس وقت بھی بچی جماع کے قابل ہو جائے گی تو خاوند اس سے نکاح کر سکتا ہے۔
اس لیے اگر کم سن بچی کا نکاح بچی کے والد کے علاوہ کوئی اور مثلاً : چچا، دادا، یا بھائی نکاح کر دے تو یہ نکاح درست نہیں ہوگا، اور اگر یہ شادی باپ یا خود بچی کے علاوہ کسی اور کے مفاد کی خاطر کی گئی ہو تب بھی یہ شادی درست نہیں ہوگی، اسی طرح جماع کے قابل ہونے سے پہلے بچی کو خاوند کیساتھ رخصت نہیں کیا جائے گا، نیز اس کیلیے بچی کا بالغ ہونا شرط نہیں ہے، بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ بچی ہمبستری کے قابل ہو۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: ( 22442 ) ، ( 44990 ) اور ( 127176 ) کا مطالعہ کریں۔
سوم:
ہر مسلمان یہ بات ذہن نشین کر لے کہ شریعتِ الہی کے تمام احکامات حکمت سے بھر پور ہیں، شریعت میں افراد اور معاشرے سب کی بہتری کا سامان ہے، اسی طرح باپ اگر اپنی بچی کا نکاح جلدی کر دیتا ہے تو اس میں تمام تر مفادات بچی کے ہوتے ہیں کسی اور کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز الجبرین حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات واضح ہے کہ ہم پلہ رشتہ ملنا مشکل ہے، اور ایسا ممکن ہے کہ بسا اوقات چھوٹی بچی کی شادی کرنا وقت کا تقاضا ہو، مثال کے طور پر کسی جگہ یا وقت میں فتنوں کی بھر مار ہو، یا بچی کا والد بالکل ہی غریب ہو، یا کمانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، یا کسی بھی وجہ سے اپنے خاندان کی کفالت کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں چھوٹی بچی کو ایک ایسے محافظ کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی حفاظت کیساتھ ساتھ اس کے اخراجات بھی برداشت کرے، چنانچہ ایسی صورت حال میں چھوٹی بچی کو ایسے شخص کے اختیار میں دے دیا جائے جو اس کا بھر پور خیال رکھنے والا ہو اور وہ والد ہی ہو سکتا ہے، اس لیے والد اپنی چھوٹی بچی کی شادی ایسے شخص سے کر سکتا ہے جس کے ساتھ بچی کا روشن مستقبل منسلک ہو، چنانچہ والد مناسب رشتہ ملنے کے موقع کو ضائع مت کرے کیونکہ اچھا رشتہ ہر وقت نہیں ملتا، اور عام طور پر بچپن میں شادی کرنا بچی کے حال اور مستقبل سمیت دین و دنیا میں بھی مفید ثابت ہوتا ہے" انتہی
ماخوذ از: تحقیقی مقالہ: " ولاية تزويج الصغيرة " نشر کردہ: " مجلة البحوث الإسلامية " ( 33 / 256)
شیخ محترم نے ان مصلحتوں کو ذکر کرنے کے بعد یہ بھی کہا ہے کہ:
"اس لیے والد کو اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیے، اور اللہ تعالی کی طرف سے عائد ہونے والی ذمہ داری اچھے انداز میں نبھائے، اپنی چھوٹی بچی کی شادی کرتے وقت بچی کے مفادات سامنے رکھے، تا کہ اس سے مزید فوائد حاصل ہوں۔
فوائد کے بعد، باپ کی جانب سے چھوٹی بچی کی شادی کرنے پر بچی کے حقوق کو یقینی بنانے کیلیے علمائے کرام نے اس کی کچھ شرائط بھی ذکر کی ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں:
1- بچی اور والد کے درمیان کوئی دشمنی نہ ہو۔
2- بچی اور ہونے والے خاوند کے درمیان کوئی دشمنی نہ ہو۔
3- باپ ایسے شخص سے بچی کی شادی نہ کرے جس کی وجہ سے بچی کو نقصان پہنچنا بالکل واضح ہو، مثلاً: انتہائی بوڑھا یا نفس کٹا انسان وغیرہ
4- ایسے مناسب شخص کے عقد میں دے جو حق مہر دینے میں ٹال مٹول نہ کرے"
ماخوذ از: " مجلة البحوث الإسلامية " ( 33 / 256 ، 257 )
واللہ اعلم.