اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بے پرد بیوی کا کیا کرے اسے اللہ کا اطاعت گزار خاوند بھی پسند نہیں ؟

178162

تاریخ اشاعت : 31-10-2018

مشاہدات : 9020

سوال

اگر میری بیوی درج ذیل امور میں میری اطاعت نہیں کرتی تو کیا مجھے بھی گناہ ہوگا ؟ اور میں اس سے کیسا برتاؤ  کروں ؟

آخری دو برسوں کے دوران میں سنت نبوی کی اتباع پابندی سے کرنے لگا ہوں، اور میں یہ کام سخت جد و جہد کے بعد کر رہا ہوں؛ کیونکہ میرے معاشرے میں ان امور کو ضروری نہیں سمجھا جاتا، میں نے موسیقی اور گانے سننا چھوڑ دیے ہیں،  اسی طرح رقص اور اختلاط والی شادی کی تقاریب میں جانا ترک کر دیا ہے، اور ایسے ہی میں ساحل سمندر پر بھی نہیں جاتا کیونکہ وہاں مرد و زن کا اختلاط اور عریانی ہوتی ہے اور اگر مجھے مجبوراً جانا بھی پڑے تو میں اپنا ستر چھپا کر رکھتا ہوں۔

لیکن آج کل لوگ مختصر ترین لباس زیب تن کرنے لگے ہیں، میں وہاں آنکھیں نیچی رکھتا ہوں، اور اپنا لباس بھی ٹخنوں سے نیچے نہیں رکھتا، اور ملاقات کے وقت عورتوں سے ہاتھ بھی نہیں ملاتا، لیکن یہ سب کچھ میری بیوی پسند نہیں کرتی بلکہ وہ ان امور کو زندگی سے لطف اندوز ہونے سے محرومیت سمجھتی ہے، وہ کہتی ہے کہ : میں بہت تبدیل ہو چکا ہوں ۔

میری بیوی کو خدشہ ہے کہ میں نے دینی امور پر پابندی کرنا شروع کر دی تو وہ تنگ ہو جائے گی، یہ واضح رہے کہ میں بیوی کو وعظ و نصیحت کرتا رہتا ہوں، اور اسے قرآن مجید سے ایسی آیات اور احادیث بھی دیکھاتا ہوں جو ان امور سے روکتی ہیں، لیکن وہ ان پر عمل پیرا ہونے سے انکار کرتی ہے۔

یہاں ایک وضاحت کرتا چلوں کہ میری بیوی صوم و صلاۃ کی پابند بھی ہے اور با اخلاق بھی لیکن پردہ نہیں کرتی  ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ:

اول:

ہم اللہ تعالی سے آپ کے لیے دین پر ثابت قدمی کی دعا کرتے ہیں، اور یہ بھی دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی بیوی کو اپنی اس کمی  کوتاہی اور بے پردگی سے توبہ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

دوم:

اللہ تعالی نے بالغ عورتوں پر پردہ واجب کیا ہے، اور اس پر علمائے کرام متفق ہیں، بالغ عورت کے سر ڈھانپنے کے واجب ہونے میں علمائے  کرام کا کوئی اختلاف نہیں، بلکہ اختلاف صرف چہرہ اور ہاتھ چھپانے میں ہے۔

لیکن صحیح قول یہی ہے کہ چہرہ اور ہاتھ بھی بالغ عورت کے لیے چھپانے واجب ہیں، آپ کی بات کہ "آپ کی بیوی پردہ نہیں کرتی " اس سے ہمیں تو یہی سمجھ آئی ہے  کہ مسلمان عورتوں کے ہاں جو پردہ معروف ہے جس سے سر  اور سارا جسم چھپ جاتا ہے آپ کی بیوی اس کی مخالف ہے، معاملہ چہرہ اور ہاتھ چھپانے کا نہیں جس میں اختلاف پایا جاتا ہے، بلکہ معاملہ سر ڈھانپنے کا ہے، جس کے متعلق قرآن مجید کی صریح نص موجود ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

  يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَّحِيماً  

ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں، یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں تکلیف نہ پہنچائی جائے، اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا  نہایت رحم کرنے والا ہے [الاحزاب : 59]

اب آپ پر واجب ہے کہ آپ اپنی بیوی کو ان تمام احکامات کی پابندی کرنے کا حکم دیں جو شرعی نصوص سے واجب ہیں، اللہ تعالی نے آپ کو یہ ذمہ داری اپنے اس فرمان میں دی ہے:

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ

مرد عورتوں پر نگران ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے، اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں [النساء : 34]

تو اللہ تعالی نے آپ کو اپنی رعایا کا ذمہ دار بنایا ہے اور آپ کی رعایا میں آپ کی بیوی بھی شامل ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
" تم سب ذمہ دار ہو، اور اس ذمہ داری کے متعلق جوابدہ ہو، مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے، اور اسے ان کے متعلق جواب دینا ہے "
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2278 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1829 )۔

سوم:

اس کو پردے کی پابندی کرانے کے ساتھ ساتھ ہماری رائے میں آپ بیوی کے متعلق صبر و تحمل سے کام لیں، اور اس سے علیحدگی سے قبل اسے مہلت دیں، اس کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کی نافرمانی کی صورت میں شرعی طریقہ اختیار کریں، جیسے کہ شریعت نے حکم دیا ہے کہ:

سب سے پہلے آپ اسے وعظ و نصیحت کریں، اور بتائیں کہ اللہ تعالی نے اس پر یہ یہ واجب کیا ہے، اور اللہ نے جن امور سے منع فرمایا ہے اس کے متعلق بھی بیوی کو بتائیں، اس کے لیے شرط نہیں کہ آپ خود ہی اسے وعظ کریں، بلکہ اس کے لیے آپ کسی دینی طور پر پختہ خاتون سے بھی مدد لے سکتے ہیں وہ اسے ان امور کی وضاحت کرے، اور وعظ و نصیحت کرتی رہے۔

اگر یہ چیز فائدہ نہ دے تو پھر آپ اس کے بعد والا قدم اٹھائیں وہ یہ کہ آپ اسے بستر سے علیحدہ کر دیں، اور اگر اس طرح بھی کوئی فائدہ نہ ہو تو پھر آپ اسے ہلکی پھلکی مار کی سزا دے سکتے ہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے:

 فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّهُ وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيّاً كَبِيراً 

ترجمہ: پس نیک عورتیں فرماں بردار ہیں، غیر حاضری میں حفاظت کرنے والی ہیں، اس لیے کہ اللہ نے انہیں محفوظ رکھا اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی سے تم ڈرتے ہو سو انہیں نصیحت کرو اور بستروں میں ان سے الگ ہو جاؤ، اور انہیں مار کی سزا دو؛ اگر وہ تمہاری فرماں برداری کریں تو ان پر ( زیادتی کا ) کوئی راستہ تلاش مت کرو، بے شک اللہ تعالی ہمیشہ سے بہت بلند، اور بہت بڑا ہے [النساء:  34 ]

اس صبر و تحمل کے ساتھ ہم آپ کو یہ بھی نصیحت کریں گے کہ بیوی کو بغیر پردہ گھر سے باہر نکلنے یا غیر محرم مردوں سے ملنے کی اجازت دینے میں آپ تساہل و سستی سے کام مت لیں، آپ جو مناسب سمجھیں اور حکمت سے کام لیتے ہوئے بیوی کو نرمی یا سختی سے ایسا کرنے سے روکیں۔

بیوی کی اصلاح اور اسے اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کی راہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی آپ کے ذمے ہے کہ آپ اس سے نرمی کا سلوک کریں تا کہ وہ یہ جان سکے کہ آپ اسے شریعت کے التزام کا جو حکم دے رے ہیں وہ اللہ کا حکم ہے اور ہر مسلمان پر اسے اختیار کرنا واجب ہے، اور کسی کے لیے بھی اس کی مخالفت جائز نہیں۔

اور اصل میں آپ کی بیوی کو تو چاہیے تھا کہ وہ آپ کو اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری پر داد دیتی، اس میں مزید اضافہ اور جاری رہنے کا کہتی، نیز یہ سمجھتی کہ دینی امور اور سنت نبویہ پر چلنا تشدد نہیں بلکہ یہ تو صراط مستقیم پر استقامت کا نام ہے، تاہم اس راہ پر چلتے ہوئے کمی کوتاہی ہو جاتی ہے جیسے کہ آپ نے خود اپنے اندر کوتاہی کا ذکر کیا ہے، تو بیوی کو یہ حق نہیں کہ وہ آپ کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جائے اور خیر کے کاموں سے روکنے لگے!

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نے اس کے حسن اخلاق اور نماز روزے کی پابندی کے متعلق جو گواہی دی ہے یہ ان کے علاج کا ایک اچھا آغاز ہے؛ کیونکہ حسن اخلاق : جی ہاں،  یہ بہت ہی کم ملتا ہے اور پھر اسی میں حسن اخلاق پایا جاتا ہے جو اندر سے اچھا ہو، اور خاص کر نماز تو اخلاق حسنہ کی دعوت دیتی ہے۔

جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: نماز برائی اور بے حیائی کے کاموں سے منع کرتی ہے؛ اس لیے آپ اس سارے کو اس کی نماز اور حسن اخلاق سے مربوط کر دیں، کیونکہ اللہ کی بندگی کا دروازہ ایک ہی ہے۔

مزید آپ سوال نمبر ( 121467 ) اور ( 102799 ) کے جوابات کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب