منگل 23 جمادی ثانیہ 1446 - 24 دسمبر 2024
اردو

اگر مطلقہ کا ذریعہ معاش زکاۃ ہو تو اپنے والد کے گھر رہتے ہوئے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے زکاۃ لے سکتی ہے؟

178176

تاریخ اشاعت : 29-11-2015

مشاہدات : 2137

سوال

سوال: میں طلاق یافتہ ہوں اور میرے پاس 12، 13، اور 14 سال کے تین بچے ہیں جو میرے ساتھ ہی میرے والد کے گھر میں رہتے ہیں، بچوں کے والد کی طرف سے ماہانہ 300 یا 400 ریال ملتے ہیں اور کبھی کچھ بھی نہیں دیتا، اس کا کہنا ہے کہ میں جتنا کر سکتا ہوں کرتا ہوں، اس سے زیادہ نہیں کر سکتا، حالانکہ میں بچوں کی ضروریات کے نام پر کوئی بوجھ نہیں ڈالتی، بلکہ مجھے بسا اوقات شرمندگی ہوتی ہے کہ میرے والد ان پر خرچ کرتے ہیں حالانکہ ان کا باپ ابھی زندہ ہے، تاہم میرے والد نے کبھی اس بات کا مجھے احساس نہیں ہونے دیا۔
میں نے دوسری شادی اس لیے نہیں کی کہ بچوں کی تربیت اچھی طرح کر سکوں؛ کیونکہ میرے بچوں کا باپ بہت ہی لا پرواہ آدمی ہے۔ ا
ور جس وقت مطلقہ خواتین کیلئے شاہی فرمان جاری ہوا کہ انہیں ماہانہ وظیفہ جاری کیا جائے تو میں بھی انہیں میں شامل ہوگئی اور مجھے ماہانہ 862 ریال ملتے تھے، اس رقم سے میں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی اس رقم کی وجہ سے مجھے کافی اطمینان ہوا اور ذہنی طور پر سکون بھی ملا؛ کیونکہ میں بسا اوقات فرط شرمندگی کی وجہ سے روتی تھی اور یہ سمجھتی تھی کہ میرے بچے میرے والد پر بوجھ ہیں، لیکن کچھ عرصہ بعد مجھے علم ہوا کہ مطلقات کو ملنے والا ماہانہ وظیفہ زکاۃ میں سے ہے، تو کیا میں اور میرے بچے زکاۃ کے مستحق ہیں؟ مجھے اپنے بارے میں بہت حیرت ہے، مجھے اس بارے میں فتوی دیں، اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

تمام علمائے کرام کے ہاں متفقہ طور پر اولاد کا خرچہ باپ کے ذمہ ہے، چاہے ان کی ماں باپ کے عقد میں ہو یا نہ ہو، اور چاہے بچوں کی ماں  غریب ہو یا امیر، باپ کی موجودگی میں بچوں کا خرچہ ماں کے ذمہ نہیں ہوتا۔

اور اگر مطلقہ خاتون اپنے بچوں کی ذمہ داری سنبھالے  تو بچوں کا خرچہ ان کے باپ کے ذمہ ہے اور اس خرچہ میں رہائش، کھانا پینا، لباس، تعلیم اور دیگر تمام ضروریات کی چیزیں  شامل ہیں، اس کی مقدار عرف عام کے مطابق مقرر کی جائے گی، اور باپ کی حالت کو بھی مد نظر رکھا جائے گا، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا
ترجمہ: صاحب حیثیت اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جس کا رزق تنگ ہے وہ اللہ کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرے، اللہ تعالی کسی کو اسی چیز کا  مکلف بناتا ہے  جو اللہ تعالی اسے دیتا ہے، عنقریب اللہ تعالی مشکل کے بعد آسانی فرما دے گا۔[الطلاق : 7]

خرچے کی مقدار ہر ملک اور فرد کے اعتبار سے الگ الگ ہوگی۔

چنانچہ اگر خاوند مالدار ہے اور خرچہ بھی اسی کے مطابق ہوگا، اور اگر غریب ہے یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے تو  تب بھی اس کی حالت کے مطابق خرچہ ہوگا، اور اگر والدین آپس میں کسی معین مقدار  پر اتفاق کر لیں تو انہیں اس کی اجازت ہے، جبکہ دونوں میں اختلاف کی صورت میں عدالت سے فیصلہ کروایا جائے گا۔

اور اگر کوئی شخص اپنی مطلقہ بیوی سے پیدا ہونے والے بچوں پر خرچ نہ کرے یا خرچ کرتے ہوئے  کنجوسی سے کام لے  تو پھر مطلقہ عورت  زکاۃ وصول کر سکتی ہے۔

دوم:

اگر آپ کے پاس کچھ نہیں ہے لیکن آپ کے والد صاحب حیثیت ہیں تو  آپ کے والد پر آپ کا خرچہ لازمی ہے، اور اگر ان کے پاس اتنی استطاعت نہیں ہے تو آپ  اپنے لیے زکاۃ لے سکتی ہیں۔

چنانچہ اگر مطلقہ خواتین کو حکومت کی جانب سے ملنے والا ماہانہ وظیفہ زکاۃ میں سے ہے تو آپ اپنے بچوں کیلئے وصول کر سکتی ہیں، اور آپ ان بچوں کیساتھ  کھا پی سکتی ہیں، یا پھر آپ کے والد کیلئے آپ کا خرچہ قابل برداشت نہ ہونے کی صورت میں  اپنے لیے بھی زکاۃ وصول کر سکتی ہیں۔

تاہم اگر  بچوں کی ضروریات ان کے والد کی طرف سے ملنے والی ماہانہ رقم سے اور آپ کی ضروریات آپ کے والد کے تعاون سے پوری ہو جاتی ہیں تو پھر ملنے والا ماہانہ وظیفہ اگر زکاۃ میں سے ہو تو آپ وصول نہ کریں۔

اور اگر ماہانہ وظیفہ  حکومت کی طرف سے ہے زکاۃ نہیں ہے تو پھر آپ  اسے بلا جھجک لے سکتی ہیں ؛ کیونکہ یہ آپ کو حکومت کی مخصوص شرائط پر پورا اترنے کی وجہ سے آپ کو دیا جا رہا ہے۔

بہر حال ماہانہ وظیفے کے بارے میں تصدیق کر  لیں کہ یہ زکاۃ میں سے ہے یا حکومتی فنڈ ہے؟

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب