اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

استنجا کرتے ہوئے کپڑے کو لگ جانے والے پانی کا حکم

سوال

استنجا کرتے ہوئے ٹونٹی سے نکلنے والا پانی اگر کپڑوں کو لگ جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

پانی کے نل سے نکلنے والا پانی اگر جسم یا کپڑے کو لگ جاتا ہے تو یقیناً یہ پانی پاک ہے؛ کیونکہ نل سے نکلنے والا پانی پاک ہوتا ہے۔

لیکن اگر کپڑے کو لگنے والا پانی اس پانی میں سے ہے جس سے نجاست دھوئی جاتی ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں اگر یہ پانی نجاست کو لگ کر کپڑے کو لگا ہے اور اس کا رنگ اور بو وغیرہ بھی نجاست کی وجہ سے بدل چکے ہیں تو پھر یہ پانی نجس ہے، لہذا کپڑے یا جسم جہاں بھی یہ پانی لگے گا تو اس جگہ کو دھونا ضروری ہے۔ لیکن اگر یہ پانی نجاست کو لگ کر کپڑے یا جسم کو لگا لیکن اس کا رنگ یا بو وغیرہ نہیں بدلا تو یہ پانی پاک ہے، اس کے لگنے سے کچھ نہیں ہو گا۔

یہی امام مالک رحمہ اللہ کا موقف ہے، اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ "الموسوعة الفقهية" (29/99) کا مطالعہ کریں۔

یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایسے مسائل میں شیطان بھی وسوسے ڈال سکتا ہے جس کی وجہ سے انسان بلا وجہ غیر شرعی تشدد میں مبتلا ہو سکتا ہے، اس لیے قضائے حاجت کرتے ہوئے پانی کے اڑنے والے چھینٹوں کے بارے میں شک نہیں کرنا چاہیے، ہاں اگر واقعی مسلمان کو یقین ہو کہ پانی نجس ہے تو پھر اس جگہ یا کپڑے کو دھو لینا چاہیے، پانی کی نجاست رنگت اور بو سے پہچانی جا سکتی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"پانی ذاتی طور پر پاک ہے، لیکن اگر اس میں نجاست شامل ہو جائے اور اس میں نجاست کی علامات بھی ظاہر ہوں تو اس پانی کو استعمال کرنا اس نجاست کو استعمال کرنا ہو گا ؛ اسی لیے اس نجاست کے شامل ہونے کی وجہ سے اس پانی کو استعمال کرنا منع ہے، نہ کہ یہ پانی ذاتی طور پر ناپاک تھا، لہذا نجاست کے شامل ہونے کی اگر کوئی واضح علامت نہ ہو پانی صاف اور پاک بھی لگے تو پھر پانی کے بارے میں نجس ہونے کا خدشہ رکھنا اور تخمینے و اندازے لگانا اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کے مترادف ہے جسے اللہ تعالی نے ہماری شریعت میں سے ختم کر دیا ہے، نیز ہماری شریعت میں سے ختم کر دئیے گئے بوجھ اور تکلیف میں سے ہے۔
اور یہ بات ثابت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک نصرانی عورت کے گھڑے سے وضو فرمایا، حالانکہ یہ احتمال وہاں بھی موجود تھا، اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے ایک دوست کے ساتھ پانی کے ایک پرنالے کے پاس سے گزرے تو آپ کے دوست نے پرنالے والے سے پوچھا پرنالے کا پانی پاک ہے یا نجس ؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پرنالے والے آپ کو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ یہ وضاحت پوچھنا اس پر ضروری نہیں ہے۔
اس مسئلے میں ائمہ کرام جیسے کہ امام احمد وغیرہ نے صراحت کی ہے کہ اگر کسی پر پرنالے وغیرہ سے پانی گرے اور اس پانی کے نجس ہونے کی کوئی علامت بھی نظر نہ آئے تو اس کے بارے میں سوال پوچھنا لازم نہیں ہے، بلکہ مکروہ ہے۔" ختم شد
"الفتاوى الكبرى" (1/225 ، 226)

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایک شخص قضائے حاجت کی جگہ پر وضو کرتا ہے اور احتمال ہے کہ اس کے کپڑے نجس ہو جائیں گے تو کیا اس پر کپڑوں کو دھونا ضروری ہے؟"
انہوں نے جواب میں فرمایا:
"اس سوال کا جواب دینے سے قبل میں یہ کہنا چاہوں گا کہ:
الحمدللہ، ہماری شریعت ہر اعتبار سے کامل بھی ہے اور اللہ تعالی کی پیدا کردہ انسانی فطرت کے موافق بھی ؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ہماری شریعت کو آسان اور سہل بنایا ہے، بلکہ ہماری شریعت تو ایسے احکام لے کر آئی ہے جس میں انسان کو بے بنیاد وسوسوں اور خیالات سے دور رکھا گیا ہے۔ اس بنا پر انسان کے کپڑوں کا بنیادی طور پر حکم تو یہ ہے کہ کپڑے پاک ہوتے ہیں تا آں کہ بدن اور کپڑوں پر نجاست کے لگنے کا یقین ہو جائے۔ اس بنیادی اصول کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان دلیل ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے شکایت کی کہ اسے نماز کے دوران وضو ٹوٹنے کا شک رہتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تک نماز کے دوران ہوا خارج ہونے کی آواز نہ سن لے یا بو نہ سونگھ لے) اس لیے اصولی حکم یہ ہے کہ انسان اپنی حالت پر باقی ہوتا ہے تا آنکہ اس کے خلاف کوئی دلیل مل جائے۔

تو جن کپڑوں کے ساتھ وہ قضائے حاجت کرنے کے لیے حمام میں داخل ہوئے ہیں جیسے کہ سائل نے ذکر بھی کیا ہے پھر اسے پانی لگ گیا تو کون کہتا ہے کہ کپڑے کو لگنے والی رطوبت نجاست ، یا پیشاب یا پاخانے کی وجہ سے ناپاک ہو جانے والے پانی کی وجہ سے ہے؟
تو اگر ہم اس بارے میں یقینی بات نہیں کر سکتے تو اصل حکم یہی ہے کہ یہ رطوبت پاک ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کبھی غالب گمان ہو سکتا ہے کہ جسم یا کپڑے کو لگنے والی رطوبت نجاست ہو سکتی ہے، لیکن جب تک ہمیں یقین نہ ہو جائے تو اصل بنیادی حکم یہی ہے کہ ہمارا جسم یا کپڑا پاک ہے۔

اس لیے اس سوال کے جواب میں ہم کہیں گے کہ: جب تک انہیں کسی نجس چیز کے لگنے کا یقین نہیں ہو جاتا اس وقت تک اس کا اصل حکم یعنی طہارت کا حکم لگے گا، چنانچہ ان پر اپنے کپڑوں کو دھونا ضروری نہیں ہے، انہی کپڑوں میں وہ نماز پڑھ سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم" ختم شد
"مجموع فتاوی ابن عثیمین" (11/ سوال نمبر: 23)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب