الحمد للہ.
اول:
اصل تو يہى ہے كہ مسلمان شخص كو اپنے كسى بھى تنازع ميں شريعت كے علاوہ كہيں اور سے فيصلہ نہيں كرانا چاہيے، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اگر تم كسى چيز ميں تنازع كر بيٹھو تو اسے اللہ اور اس كے رسول پر پيش كرو اگر تم اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، يہ بہت بہتر ہے اور اچھے انجام والا ہے النساء ( 59 ).
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ سبحانہ و تعالى نے ہميں آپس كے سارے تنازعات كو اپنى اور اپنے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹانے كا حكم ديا ہے، اس ليے كبھى ہمارے ليے مباح نہيں كہ ہم تنازع كو رائے يا قياس يا كسى امام كى رحمت اور خواب اور كشف و الہام اور دل كى بات اور استحسان و عقل اور نہ ہى كسى دنياوى قانون اور كسى بادشاہ كى سياست اور لوگوں كى عادت جو مسلمانوں كى شريعت كے مطابق نہيں پيش نہيں كر سكتے، كيونكہ يہ سب سے زيادہ نقصاندہ ہے اس سے زائد كو قابل ضرر چيز نہيں ہے، اور يہ سب طاغوت ہيں، اس ليے جس نے ان كى طرف اپنا فيصلہ كرانا چاہا يا اسے اپنے تنازع ميں حكم و فيصل مانا تو اس نے طاغوت سے فيصلہ كروايا " انتہى
ديكھيں: اعلام الموقعين ( 1 / 244 ).
ان دنياوى عدالتوں وغيرہ طاغوت سے فيصلہ كرانے كا گناہ صرف اسى صورت ميں ہوگا جب اللہ كى شريعت كے مطابق فيصلہ كرانے سے انكار و اعراض كيا جائے، اور اسے چھوڑ كر كسى دوسرے سے فيصلہ كرايا جائے.
ليكن اگر كسى كے ملك ميں شريعت كا نفاذ نہيں اور شرعى عدالت نہيں تو اسے اپنا حق حاصل كرنے كے ليے ان دنياوى عدالتوں ميں جانا پڑتا ہے يا اپنے اوپر ظلم روكنے كے ليے ان عدالتوں ميں جانا پڑتا ہے تو پھر ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن يہ بھى تين شروط كے ساتھ جائز ہوگا:
پہلى شرط:
اس كے علاوہ كسى اور جائز طريقہ سے حق حاصل نہ كيا جا سكتا ہو.
دوسرى شرط:
وہ اپنے حق سے زائد وصول مت كرے، چاہے قانون بھى اس كا فيصلہ كر دے تب بھى زيادہ نہ لے.
تيسرى شرط:
وہ اس عدالت سے فيصلہ كرانا ناپسند كرتا ہو، اور مجبورا اس سے فيصلہ كرائے.
ہم يہ شروط اور اس سلسلہ ميں علماء كرام كے فتاوى جات سوال نمبر ( 29650 ) كے جواب ميں بيان كر چكے ہيں آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
ابتدائى طور پر آپ كے ليے كوئى حرج نہيں كہ آپ ايك غير مسلم عورت كے ہاتھ پرورش پانے والے اپنے بيٹے كا حق پرورش خود حاصل كريں، چاہے يہ معاملہ بڑھ جائے كہ يہ حق پوليس كے ذريعہ يا پھر اس ملك كے قانون كے مطابق فيصلہ كرا كر ليا جائے جہاں شرعى عدالتيں نہيں ہيں.
آپ كا اس تنظيم سے شكايت واپس لينے سے انكار كرنا ان شاء اللہ شرعيت كے مطابق فيصلہ كرانے سے انكار شمار نہيں ہوتا ـ كيونكہ ہو سكتا ہے واقعى يہ آپ كى مطلقہ بيوى كى چال ہو تا كہ آپ اپنے بيٹے كا حق پرورش ہى كھو بيٹھيں.
اس ليے ہمارے خيال كے مطابق تو آپ كا يہ فعل شريعت الہى كا انكار نہيں، خاص كر جب وہاں كوئى ايسى عدالت يا ايسا شخص نہيں جو آپ كى بيوى كو شرعى حكم كى پابند بنا سكے؛ كيونكہ يہ بات تو معلوم اور طے شدہ ہے كہ فيصلہ پر عمل درآمد تو عدالت ہى كرا سكتى ہے، نہ كہ وہ تنظيم اور فيصلہ كرنے والا جو فيصلہ پر عمل درآمد نہ كرانے كى مالك ہى نہ ہو، اور جو فيصلہ كرے اسے ترك كرنا آسان ہو.
دوم:
آپكى مطلقہ بيوى كا اپنے ملك واپس آنے كے بعد آپ كے بچے كى پرورش كے مسئلہ ميں ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ جبكہ ماں واپس آچكى ہے تو پرورش كا حق اسے حاصل ہوگا، ليكن اگر وہ پھر دبى يا كہيں اور جا كررہنا چاہے تو حق پرورش ساقط ہو كر آپ كو مل جائيگا.
سوال نمبر ( 8189 ) كے جواب ميں ہم سفر كے نتيجہ ميں حق پرورش منتقل ہو جائيگا آپ اس كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے اس كا مطالعہ كريں.
اور سوال نمبر ( 98965 ) كے بيان ہوا ہے كہ حق پرورش والدين ميں سے اسے حاصل ہوگا جو دونوں ميں دينى طور پر بہتر اوراچھا ہوگا، اور جو بچے كو اچھى اور بہتر سہوليات اور بدنى و دينى ديكھ بھال اچھى كريگا، جو خود گناہ و معاصى كا شكار ہو وہ بچے كى دينى تربيت ميں بھى كوتاہى كريگا، اسے بچے كى پرورش كا حق نہيں ديا جائيگا چاہے وہ باپ ہو يا ماں.
ہمارى رائے تو يہى ہے كہ آپ اپنے بچے كى پرورش كا حق حاصل كرنے كى كوشش كريں، كيونكہ ماں سفر پر جائيگى اور بچہ غير مسلم نانى كے پاس رہےگا، اس ليے آپ كو اپنا بيٹا اس طرح كى حالت ميں نہيں چھوڑنا چاہيے، چاہے آپ كى اس پر صلح بھى ہو جائے.
واللہ اعلم .