جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

شادى كے بعد مؤجل مہر كو اور زيادہ كرنے كا حكم

182895

تاریخ اشاعت : 12-03-2013

مشاہدات : 6300

سوال

ميرے خاوند كا پہلى بيوى جسے وہ طلاق دے چكا ہے سے ايك بيٹا اور بيٹى ہے، اور ميرى دو بيٹياں ہيں، ميں چاہتى ہوں كہ وہ ميرے مہر مؤجل ( بعد ميں ادا كيا جانے والا مہر ) ميں اضافہ كرتے ہوئے ( 19 ) مثقال سونا كى بجائے ( 100 ) مثقال سونا كرے، ليكن ہمارے ہاں عراق ميں يہ فتوى ديا جاتا ہے كہ ( 19 ) مثقال سے زائد مہر مؤجل ركھنا جائز نہيں، وگرنہ اس سے زائد سونے پر ہر سال زكاۃ ادا كرنا فرض ہو گى، چاہے ميں نے ابھى وہ ليا بھى نہ ہو.
ہمارے ہاں عراق ميں باقى مانندہ مہر ( مہر مؤجل ) خاوند كى وفات كے بعد ہى حاصل كيا جاتا ہے، كيا ميرے ليے زيادہ كرنے كا حق ہے تا كہ اپنا حق محفوظ كر سكوں؛ كيونكہ ہم ايك گھر كے علاوہ كسى اور چيز كے مالك نہيں، مجھے خدشہ ہے كہ اللہ نہ كرے اگر ميرے خاوند كو كچھ ہو گيا تو وہ مجھے گھر فروخت كر كے اس كى اولاد كا حصہ دينے پر مجبور كريں گے، اس طرح ميرے اور بيٹيوں كے ليے كوئى ٹھكانہ نہيں رہے گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

شريعت اسلاميہ ميں مہر كى كوئى حد مقرر نہيں كى گئى كہ اس سے زائد اور كم نہ جائے، چاہے مہر معجل يا غير معجل ہو، ليكن شريعت ميں مہر كم ركھنے اور مہر ميں آسانى پيدا كرنے كى رغبت دلائى ہے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" مہر زيادہ ہونے كى حد ميں فقھاء كرام كا كوئى اختلاف نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 39 / 160 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

" نكاح ميں مہر ذكر كرنا نكاح كے اركان ميں سے كوئى ركن نہيں ہے، اس ليے اگر كسى عورت كے ساتھ مہر ذكر كيے بغير نكاح كر ليا جائے تو نكاح صحيح ہوگا، اور اس عورت كے ليے مہر مثل دينا واجب ہوگا، كم از كم مہر كى كوئى حد نہيں ہے، بلكہ ہر وہ چيز جو قيمت ہو علماء كے صحيح قول كے مطابق وہ مہر بن سكتى ہے "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 53 ).

اس كے علاوہ مزيد آپ زاد المعاد ( 5 / 178 ) اور سوال نمبر ( 10525 ) كے جواب كا مطالعہ بھى كريں.

دوم:

سوال نمبر ( 20154 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ اصل يہى ہے كہ عورت نے جتنے مہر كا نام ليا ہے مرد كو اس كا التزام كرنا ہوگا، اور اگر وہ اس كے خلاف يا اس سے كم يا زيادہ پر دونوں راضى ہوتے ہيں تو يہ جائز ہے؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور تم پر اس ميں كوئى گناہ نہيں جس پر تم مقرر كر لينے كے بعد آپس ميں راضى ہو جاؤ النساء ( 24 ).

سوم:

سوال نمبر ( 84005 ) كے جواب ميں بيان ہوا ہے كہ وہ مہر مؤجل جو عورت خاوند كى موت يا طلاق كى بنا پر عليحدگى كے بعد حاصل كرتى ہے پر زكاۃ نہيں؛ كيونكہ وہ حالت زوجيت ميں مہر مؤجل كا مطالبہ نہيں كر سكتى، ليكن اگر وہ احتياط كرتے ہوئے مہر لينے كے بعد ايك سال كى زكاۃ ادا كر دے تو يہ بہتر ہو گا.

اوپر كى سطور ميں بيان كردہ كى بنا پر اگر خاوند ايسا كرنے پر راضى ہوتا ہے تو انيس مثقال سے ايك سو مثقال مہر كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور يہ مہر مؤجل اپنے قبضہ ميں كرنے تك آپ پر زكاۃ نہيں ہوگى، جب آپ اپنے قبضہ ميں كريں تو ايك سال كى زكاۃ ادا كر ديں.

ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ جب آپ كا مہر آپ كے علاقے كى لڑكيوں جيسا ہو تو آپ كے ليے اس مہر سے زيادہ طلب كرنے كا حق نہيں، ليكن اگر خاوند اپنى رضامندى و خوشى سے وہ ايسا كرنے پر تيار ہو، اور آپ اللہ پر توكل كرتے ہوئے معاملہ اللہ كے سپرد كر ديں، كيونكہ كسى كو بھى معلوم نہيں كہ لوگوں كے حالات اور روزى كيسى ہوگى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب