الحمد للہ.
اول:
شريعت اسلاميہ ميں مہر كى كوئى حد مقرر نہيں كى گئى كہ اس سے زائد اور كم نہ جائے، چاہے مہر معجل يا غير معجل ہو، ليكن شريعت ميں مہر كم ركھنے اور مہر ميں آسانى پيدا كرنے كى رغبت دلائى ہے.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" مہر زيادہ ہونے كى حد ميں فقھاء كرام كا كوئى اختلاف نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 39 / 160 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
" نكاح ميں مہر ذكر كرنا نكاح كے اركان ميں سے كوئى ركن نہيں ہے، اس ليے اگر كسى عورت كے ساتھ مہر ذكر كيے بغير نكاح كر ليا جائے تو نكاح صحيح ہوگا، اور اس عورت كے ليے مہر مثل دينا واجب ہوگا، كم از كم مہر كى كوئى حد نہيں ہے، بلكہ ہر وہ چيز جو قيمت ہو علماء كے صحيح قول كے مطابق وہ مہر بن سكتى ہے "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 53 ).
اس كے علاوہ مزيد آپ زاد المعاد ( 5 / 178 ) اور سوال نمبر ( 10525 ) كے جواب كا مطالعہ بھى كريں.
دوم:
سوال نمبر ( 20154 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ اصل يہى ہے كہ عورت نے جتنے مہر كا نام ليا ہے مرد كو اس كا التزام كرنا ہوگا، اور اگر وہ اس كے خلاف يا اس سے كم يا زيادہ پر دونوں راضى ہوتے ہيں تو يہ جائز ہے؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور تم پر اس ميں كوئى گناہ نہيں جس پر تم مقرر كر لينے كے بعد آپس ميں راضى ہو جاؤ النساء ( 24 ).
سوم:
سوال نمبر ( 84005 ) كے جواب ميں بيان ہوا ہے كہ وہ مہر مؤجل جو عورت خاوند كى موت يا طلاق كى بنا پر عليحدگى كے بعد حاصل كرتى ہے پر زكاۃ نہيں؛ كيونكہ وہ حالت زوجيت ميں مہر مؤجل كا مطالبہ نہيں كر سكتى، ليكن اگر وہ احتياط كرتے ہوئے مہر لينے كے بعد ايك سال كى زكاۃ ادا كر دے تو يہ بہتر ہو گا.
اوپر كى سطور ميں بيان كردہ كى بنا پر اگر خاوند ايسا كرنے پر راضى ہوتا ہے تو انيس مثقال سے ايك سو مثقال مہر كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور يہ مہر مؤجل اپنے قبضہ ميں كرنے تك آپ پر زكاۃ نہيں ہوگى، جب آپ اپنے قبضہ ميں كريں تو ايك سال كى زكاۃ ادا كر ديں.
ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ جب آپ كا مہر آپ كے علاقے كى لڑكيوں جيسا ہو تو آپ كے ليے اس مہر سے زيادہ طلب كرنے كا حق نہيں، ليكن اگر خاوند اپنى رضامندى و خوشى سے وہ ايسا كرنے پر تيار ہو، اور آپ اللہ پر توكل كرتے ہوئے معاملہ اللہ كے سپرد كر ديں، كيونكہ كسى كو بھى معلوم نہيں كہ لوگوں كے حالات اور روزى كيسى ہوگى.
واللہ اعلم .