جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ایک لڑکی خفیہ طور پر مسلمان ہو گئی اور اپنے گھر والوں سے ڈر کی وجہ سے رمضان کا روزہ توڑ لیا ، تو کیا اب اسے قضا دینا ہو گی؟

سوال

میں کچھ عرصہ قبل مسلمان ہو چکی ہوں اور میرے والدین کو اس کے بارے میں کچھ نہیں پتہ، اگر انہیں پتہ چل بھی گیا تو وہ میری یونیورسٹی کی تعلیم کے اخراجات سے ہاتھ اٹھا لیں گے؛ اس لیے میں نے کوشش کی ہے کہ معاملہ خفیہ ہی رہے۔ ہوا یوں کہ مجھے رمضان کے تیسرے دن یونیورسٹی کے پروگرام میں مجبوراً جانا پڑا، وہاں جا کر مجھے پتہ چلا کہ انہوں نے رات کے کھانے کا انتظام کیا ہوا ہے اور اس کا وقت بھی مغرب کی اذان سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل تھا، اب مسئلہ یہ نہیں تھا کہ میں ان کے ساتھ نہ کھاؤں؛ مسئلہ یہ بنا کہ اسی پروگرام میں میرے والدین بھی شریک تھے اور مجھے ان کی شرکت کے بارے میں علم نہیں تھا؛ میں نے اس معاملے میں کچھ غور و خوض کیا تو مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ انہیں میرے مسلمان ہونے کا علم نہ ہو جائے؛ کیونکہ میرے والدین دیکھ رہے تھے میں گزشتہ کچھ دنوں سے اسلام کے بہت قریب ہوں اور تین دن سے میں ان کے ساتھ کھا پی بھی نہیں رہی، اب اگر انہوں نے آج کے پروگرام میں بھی مجھے دیکھ لیا کہ میں یہاں بھی نہیں کھا پی رہی تو وہ یقینی طور پر جان لیتے کہ میں واقعی مسلمان ہو چکی ہوں، اور اگر انہیں اس بات کا علم ہو گیا تو اس کے نتائج بہت بھیانک ہو سکتے ہیں، اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں روزہ توڑ لیتی ہوں، تو میں نے روزہ توڑ لیا اور اللہ تعالی سے اپنے گناہ کی معافی بھی مانگی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا مجھ پر اس روزے کی قضا لازم ہو گی یا کفارہ ادا کرنا ضروری ہو گا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو ڈھیروں اجر و ثواب سے نوازے اور آپ پر ظاہری و باطنی نعمتوں کی برکھا برسائے، آپ کو علم نافع اور عمل صالح سے نوازے۔ آپ کو اسلام قبول کرنے پر ہم دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں، نیز آپ کی اسلامی شعائر کی ساتھ محبت کے ساتھ ساتھ انہیں صحیح اسلامی طریقے کے ساتھ ادا کرنے پر بھی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

تو جب تک آپ کو اسلام ظاہر کرنے پر سخت نتائج کا خدشہ ہے تو آپ پر والدین کے سامنے مسلمان ہونے کا اظہار کرنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوا ہو تو اللہ تعالی مجبوری کی حالت میں غیر اعلانیہ اسلام کو بھی قبول فرماتا ہے، تاہم اس پر یہ ضروری ہے کہ اسلامی شعائر پر حسب استطاعت عمل پیرا رہے، اور اپنے آپ کو کسی ایسی آزمائش میں مت ڈالے جس کی وجہ سے دین اسلام پر قائم رہنا ناممکن ہو جائے؛ کیونکہ آل فرعون میں سے ایک شخص کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کیا ہے اس شخص نے فرعون اور فرعونی افواج سے اپنے ایمان کو چھپایا ہوا تھا، چنانچہ اس بات کی طرف اس فرمانِ باری تعالی میں اشارہ موجود ہے:
 وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ  
ترجمہ: آل فرعون میں سے خفیہ طور پر ایمان لانے والے مومن شخص نے کہا۔[غافر:28]

اسی طرح کچھ صحابہ کرام اس زمانے میں مسلمان ہو گئے تھے جب مسلمان مکہ مکرمہ میں کمزور تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے یہ تمنا کی تھی کہ وہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان نہ کریں؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خدشہ تھا کہ کہیں لوگ انہیں تکلیفیں نہ پہنچائیں۔ ان صحابہ کرام میں سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں فرمایا تھا: (ابو ذر! قبولیت اسلام کو چھپا کر رکھو، اور اپنے علاقے میں واپس چلے جاؤ؛ جب تمہیں ہمارے غالب آنے کی خبر پہنچے تو ہمارے پاس آ جانا) بخاری: (3328)

آپ نے ذکر کیا کہ اس دن والدین کی موجودگی کی وجہ سے آپ کو روزہ توڑنا پڑا، اور روزہ نہ توڑنے پر آپ کو سنگین نتائج کا خدشہ بھی تھا تو اس صورت میں آپ کا روزہ توڑنا قابل عذر بات ہے، تاہم جب بھی ممکن ہو سکے تو آپ اس دن کے روزے کی قضا دیں گی بشرطیکہ آپ کو کسی قسم کے نقصان کا خدشہ نہ ہو، البتہ اس دن کا کفارہ آپ پر لازم نہیں ہو گا۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کو اپنی رضا کے حامل کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (165426) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب