سوموار 17 جمادی اولی 1446 - 18 نومبر 2024
اردو

ایک شخص کبیرہ گناہوں میں ملوث رہا ہے، تو کیا اپنی طرف سے حج کرنا چاہیے یا اپنی پھوپھی کی طرف سےکر سکتا ہے؟یاد رہے کہ اس سے پہلے اپنی طرف سے دو حج کر چکا ہے۔

191138

تاریخ اشاعت : 12-08-2016

مشاہدات : 4189

سوال

ایک آدمی دکان میں کام کرتا ہے اس نے کئی دکانوں سے پیسے چوری کیے ہوئے ہے ، مزید برآں نعوذ باللہ !! زنا میں بھی ملوث ہے ، اس سے پہلے دو بار حج کر چکا ہے ، یہاں سوال یہ ہے کہ کیا وہ ان گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے اپنی پھوپھی کی طرف سے حج کر سکتا ہے ؟ یا اپنے لیے ہی حج کرے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اس شخص پر سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ان مہلک اور سنگین ترین جرائم  سے سچے دل کے ساتھ توبہ کرے ،  اپنے ماضی کی کارستانیوں  پر پشیمان ہو، اور زیادہ سے زیادہ استغفار کے ساتھ نیکیاں کرے۔

اس بارے میں مزید کیلیے سوال نمبر: (14289) کا مطالعہ کریں۔

دوم:

پہلے سوال نمبر : (169633) کے جواب میں گزر چکا ہے کہ حقوق العباد سے متعلق توبہ کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ ہڑپ شدہ مال واپس کرے یا ان سے معافی کا پروانہ لے لے۔

لہذا چوری شدہ مال اصل مالک تک واپس پہنچائے، اگر اصل مالک فوت ہو گیا ہے تو اس کے ورثاء تک پہنچائے، اگر اصل مالک کی تلاش مشکل ہو یا اس تک پہنچنا مشکل ہو تو پھر اس مال کو اصل مالک کی طرف سے صدقہ کر دے، لیکن شرط یہ ہے کہ اگر بعد میں کبھی بھی اصل مالک سے ملاقات ہو جائے  تو مالک کو مکمل اختیار ہو گا کہ اس کی طرف سے کئے ہوئے صدقہ کو قبول کر لے یا اپنا اصل مال لینے کا مطالبہ کرے۔

اور اگر چوری شدہ مال کی مقدار جاننا مشکل ہو تو پھر اتنا مال اصل مالک تک پہنچائے کہ اسے بری الذمہ ہونے کا یقین ہو جائے۔

اس بارے میں تفصیلی امور جاننے کیلیے سوال نمبر: (142235) کے جوابات ملاحظہ کریں۔

سوم:

چونکہ سوال میں مذکور شخص اپنی طرف سے پہلے ہی حج کر چکا ہے تو اب وہ اپنی پھوپھی کی جانب سے حج کر سکتا ہے، بشرطیکہ اس کی پھوپھی فوت ہو چکی ہو یا زندہ تو ہو لیکن بڑھاپے کی وجہ سے حج نہ کر سکے، یا اتنی بیمار ہو کہ شفا یابی کی امید نہ ہو اور اسی بیماری کی وجہ سے مکہ پہنچ کر مناسک حج ادا کرنا ممکن نہ ہو۔

چنانچہ اگر وقتی طور پر کوئی رکاوٹ کھڑی ہے لیکن مستقبل میں اس رکاوٹ کے زائل ہونے کی امید ہے ؛ مثال کے طور پر : کسی ایسے مرض میں مبتلا ہے کہ اللہ کے حکم سے شفا یابی کی امید ہے تو پھر ان کی طرف سے حج کرنا جائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ ایسی صورت میں وہ حج کی خود استطاعت رکھتی ہیں۔

لیکن آپ نے جیسے خستہ حالت ذکر کی ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے بہتر اور افضل یہی ہے کہ وہ اپنا حج کریں ؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص اللہ کیلیے حج کرےاور اس میں کسی قسم کی بیہودگی اور فسق کا ارتکاب نہ کرے تو وہ ایسے واپس لوٹتا ہے جیسے اس کی ماں نے آج ہی اسے جنم دیا ہو ) بخاری: (1449) مسلم: (1350)
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ: (بار بار حج اور عمرہ کرو ؛کیونکہ یہ گناہوں اور غربت کو ایسے مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی  لوہے ، سونے اور چاندی  کی ملاوٹ  باہر نکال دیتی ہے، حج مبرور کا ثواب جنت کے علاوہ کوئی نہیں ہے) اسے ترمذی: (810) وغیرہ نے روایت کیا ہے، اور البانی نے "مشکاۃ المصابیح "(2524) میں صحیح قرار دیا ہے۔
لہذا اگر اللہ تعالی کے ساتھ آپ کے معاملات اتنے بگڑے ہوئے ہیں تو پھر آپ  اللہ تعالی کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات قائم کریں، اور سابقہ گناہوں کو مٹا کر صاف ستھرے ہونے کی کوشش کریں۔

نیز یہ بھی ضروری ہے کہ یہ حج توبہ اور استغفار کے بعد ہو؛ اسی طرح ہمہ قسم کے شبہات سے پاک حلال روزی سے حج کریں، اس کیلیے چوری شدہ مال اصل مالکان تک پہنچائے یا اصل مالک سے معافی مانگ لے اور پھر اپنی حلال کمائی سے حج کرے۔

ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"حج مبرور : ایسے حج کو کہتے ہیں کہ  جس میں ریاکاری، شہرت  نہ ہو، بے ہودگی اور فسق نہ ہو، نیز حلال کمائی سے کیا جائے" انتہی
" التمهيد" ( 22 / 39 )

لیکن اگر اپنی طرف سے یا اپنی پھوپھی کی طرف سے حج کرے اور گناہوں سے توبہ نہ کی ہوئی ہو مستحقین تک حقوق واپس نہ کرے تو پھر ممکن ہے کہ انجام کار اچھا نہ ہو اور عمل بھی ضائع ہو جائے، اللہ تعالی محفوظ رکھے۔

کسی نے خوب کہا ہے کہ:
إذا حجَجْتَ بمال أصلُه دنَسٌ فما حجَجْتَ ولكن حجَّت العيرُ

اگر تم حرام مال سے حج کرو تو اس سے تمہارا حج تو نہیں ہو گا لیکن سواری  کا حج ہو جائے گا۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات