الحمد للہ.
اول:
نیت اور حج یا عمرے کے تلبیہ میں فرق ہے؛ کیونکہ نیت دل سے کی جاتی ہے زبان سے نہیں، نیز نیت حج وغیرہ تمام عبادات میں واجب ہے، جبکہ تلبیہ کے بارے میں اہل علم مختلف ہیں بعض کہتے ہیں یہ مستحب ہے جبکہ دیگر اہل علم اسے بھی واجب کہتے ہیں ، حج یا عمرے کے احرام میں زبان سے تلبیہ کہنا شرعی عمل ہے، تلبیہ کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ حج یا عمرے کی نوعیت متعین کی جائے، چنانچہ عمرے کا احرام باندھنے والا شخص " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ عُمْرَةً " [یا اللہ! میں عمرہ کرنے کیلیے حاضر ہوں]کہے اور حج کا احرام باندھنے والا شخص : " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ حَجًّا" [یا اللہ! میں حج کرنے کیلیے حاضر ہوں] کہے اور حج و عمرے کا اکٹھا احرام باندھنے والا شخص : " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ عُمْرَةً وَ حَجًّا" [یا اللہ! میں حج اور عمرہ دونوں کیلیے حاضر ہوں]
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ واضح رہے کہ نیت دل کا عمل ہے اس لیے یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ:" اللهم إني نويت العمرة " یعنی "یا اللہ! میں عمرے کی نیت کرتا ہوں" یا " نويت الحج " یعنی "حج کی نیت کرتا ہوں" کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چیز ثابت نہیں ہے؛ تاہم اپنی نیت کے مطابق تلبیہ کہے گا، [واضح رہے کہ ] تلبیہ اور نیت کرنے میں فرق ہے؛ کیونکہ تلبیہ میں اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے اس لیے تلبیہ بذات خود اللہ کا ذکر ہے دل میں موجود چیز کے متعلق خبر نہیں ہے" انتہی
ماخوذ مختصراً از: "الشرح الممتع" ( 2 / 291 )
دوم:
آپ کا سفر مصر سے براہِ راست مدینہ منورہ ہے تو پھر آپ مدینہ منورہ کی میقات سے ہی احرام باندھیں گے جسے ذو الحلیفہ کہتے ہیں، آپ کیلیے مصر سے حج یا عمرے کا احرام باندھنا لازمی نہیں ہے، یا مدینہ پہنچ کر فوراً احرام باندھنا بھی ضروری نہیں ہے بلکہ جب بھی آپ مکہ جائیں تو اہل مدینہ کی میقات سے احرام باندھیں گے۔
سوم:
بہتر تو یہی ہے کہ حج تمتع کا عمرہ 8 ذو الحجہ (یوم الترویہ) کی چاشت سے پہلے ہو؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ )[جو شخص بھی حج تک عمرے کا فائدہ اٹھائے] اور فائدہ اٹھانے کا آخری وقت حج کی ابتدا ہےاور آٹھ تاریخ سے اعمال حج کی ابتداء ہوتی ہے۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا حج کا وقت شروع ہونے کے بعد بھی حج تمتع ہو سکتا ہے؟ یعنی آٹھ تاریخ کی ظہر کو حج تمتع کا عمرہ کیا جائے"
تو انہوں نے جواب دیا:
"فرمانِ باری تعالی ہے: ( فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ )[جو شخص بھی عمرے کے ساتھ حج تک فائدہ اٹھائے] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمرے کی ادائیگی حج کا وقت شروع ہونے سے پہلے کی جائے، چنانچہ اگر آپ آٹھ تاریخ کو مکہ پہنچیں تو اب آپ کے سامنے دو چیزیں ہیں یا تو حج افراد کریں یا پھر قران کریں۔
جبکہ آپ حج تمتع اب نہیں کر سکتے،اور اس دن میں کسی شخص کو منی جانے سے نہیں رکنا چاہیے؛ کیونکہ آٹھ تاریخ کا سورج چڑھ چکا ہے ،اور اب اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ منی میں ہو لیکن اگر عمرہ کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے تو اس طرح حج کے اوقات میں سے کچھ وقت گزر جائے گا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ حج کا وقت آٹھ ذوالحجہ کو سورج بلند ہونے سے شروع ہو جاتا ہے؛ اور صحابہ کرام نےا سی وقت میں ہی حج کا احرام باندھا تھا۔
اس بنا پر اگر آپ مکہ تاخیر سے پہنچیں تو مجھے یہ بہتر لگتا ہے کہ آپ حج افراد کریں یا پھر حج و عمرہ جمع کر کے حج قران کریں، کیونکہ تمتع کا اب وقت نہیں رہا " انتہی
" مجموع فتاوى ابن عثیمین" ( 22 / 52 )
چہارم:
حج ادا کرنےکے بعد حج تمتع یا قرآن کی نیت سے عمرے کی ادائیگی کرنا صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ حج تمتع کاعمرہ قرانی صراحت کے مطابق حج سے پہلے ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ ) جو شخص بھی عمرے کے ساتھ حج تک فائدہ اٹھائے۔ [البقرۃ : 196] یہاں [حج تک کی قید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ] اگر حج کا وقت شروع ہو گیا اور حاجی نے عمرہ نہ کیا تو حج تمتع کا وقت ختم ہو چکا ہے اب وہ حج کے بعد حج قران کی نیت سے بھی عمرہ نہیں کر سکتا؛ کیونکہ اس شخص نے حج اور عمرے کا اکٹھا احرام نہیں باندھا، بلکہ حج اور عمرہ الگ الگ ادا کیا ہے تاہم وہ [آٹھ ذو الحجہ کو مکہ پہنچنے والا]شخص حج قران کر سکتا ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کی نیت سے احرام باندھے اور تلبیہ میں کہے: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ حَجًّا وَ عُمْرَةً " [یا اللہ! میں حج اور عمرہ دونوں کیلیے حاضر ہوں] نیز اپنے اعمال بھی حج قران والے کرے۔
اب اس شخص کیلیے یہی افضل ہے کیونکہ حج تمتع کا وقت فوت ہو چکا ہے ؛ بلکہ کچھ اہل علم حج قران کو مطلق طور پر افضل قرار دیتے ہیں ، بہر حال حج قران حج افراد سے سب کے ہاں بغیر کسی اختلاف کے افضل ہے۔
اور یہ بھی واضح رہے کہ اگر کوئی شخص جس وقت بھی حج پانے کی کیفیت میں ہو وہ حج قران کر سکتا ہے کیونکہ اس صورت میں حج اور عمرے کے ارکان بیک وقت ادا ہوں گے الگ الگ نہیں ہوں گے، تو ایسی صورت میں یہ بات یقینی ہے کہ اس طرح سے اس کا عمرہ اور حج ایک ساتھ پورے ہو جائیں گے۔
نیز اس [آٹھ ذو الحجہ کو مکہ پہنچنے والے] کو حج کی تیسری قسم کرنے کی بھی اجازت ہے ، یعنی کہ وہ حج مفرد کرے ، حج کی یہ قسم دیگر تمام اقسام سے قدرے کم ثواب والی ہے ؛ کیونکہ اس میں افعال بھی کم ہوتے ہیں؛ اس لیے کہ تمتع اور قران کرنے والا حج اور عمرہ دونوں بجا لاتا ہے ، جبکہ حج افراد والا صرف ایک ہی عبادت کرتا ہے۔
حج سے پہلے یا بعد میں عمرہ کرنے سے متعلق سوال نمبر: (174622) اور سوال نمبر: (126752) کا جواب ملاحظہ کریں۔
پنجم:
مسجد نبوی جانے والے شخص کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک درود و سلام بھیجنا شرعی عمل نہیں ہے؛ کیونکہ یہ صحابہ کرام اور تابعین عظام کا عمل نہیں ہے اور ویسے بھی ہماری جانب سے بھیجا گیا درود و سلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جاتا ہے ، چنانچہ ابو داود: (2042) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ اور میری قبر کو میلے کی جگہ مت بناؤ، تم مجھ پر کہیں سے بھی درود و سلام بھیجو تمہارا درود و سلام مجھ تک پہنچ جائے گا) لہذا اگر ہمارا سلام ہم جہاں کہیں بھی ہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جاتا ہے تو پھر کسی کے ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک سلام بھیجنے کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (69807) کا مطالعہ کریں۔
ششم:
اگر کوئی انتہائی بوڑھا ہے یا ایسی بیماری میں مبتلا ہے کہ شفایابی کی امید نہیں ہے یا فوت ہو چکا ہے تو اس کی طرف سے عمرہ کرنا جائز ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"میں بیت اللہ جا کر عمرہ کرنا چاہتا ہوں ، میرا ارادہ ہے کہ جیسے ہی اپنے عمرے سے فارغ ہوں تو اپنے والدین کی طرف سے عمرہ کروں –الحمد اللہ، میرے والدین زندہ ہیں- اور اپنے دادا ، دادی ، نانا ، نانی کی طرف سے بھی عمرہ کرنا چاہتا ہوں وہ فوت ہو چکے ہیں ، تو کیا میرا یہ طریقہ درست ہو گا؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر آپ اپنی طرف سے عمرہ کر لیں تو آپ اپنی والدہ اور والد کی طرف سے اس صورت میں عمرہ کر سکتے ہیں کہ وہ بڑھاپے یا نا قابل شفا مرض میں مبتلا ہوں ، اسی طرح آپ اپنے فوت شدہ آبا و اجداد کی طرف سے بھی عمرہ کر سکتے ہیں"
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 11 / 80-81 )
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (10318) اور سوال نمبر: (65641) کا جواب ملاحظہ کریں۔
ہفتم:
حج کیلیے یہ شرط نہیں ہے کہ حج کے اخراجات حاجی کے ذاتی مال سے لیے جائیں، چنانچہ اگر کسی کے خرچے پر حج کرے تو بھی اس کا حج صحیح ہو گا اور فرض ادا ہو جائے گا۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"حاکم کے اخراجات پر حج کرنے والے شخص کا کیا حکم ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی حکمران اپنی رعایا کو رقم دے اور کہے کہ اس سے حج کرو ، تو کیا رعایا کیلیے اس رقم سے حج کرنا جائز ہے؟ اور اگر وہ حج کر لیں تو کیا ان کا فریضہ حج ادا ہو جائے گا؟ اپنی رائے کے ساتھ دلیل بھی ذکر کریں۔"
تو انہوں نے جواب دیا:
"رعایا کیلیے اس رقم سے حج کرنا جائز ہے، ان کا حج صحیح ہو گا؛ کیونکہ حج کے بارے میں تمام دلائل عام ہیں[یعنی: ان میں ذاتی یا کسی اور کے خرچے کا فرق نہیں کیا گیا]" انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 11 / 36 )
اور اسی طرح بلکہ اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ حج میں کام کر کے کمائی بھی کرے اور حج بھی کرے؛ تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ کے حج کے اعمال میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دورانِ حج تجارت حرام نہیں ہے؛ تاہم انسان کو ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے حج کے اعمال سے توجہ ہٹے" انتہی
"الاختيارات الفقهية" از بعلی رحمہ اللہ:(115)
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (82293) اور (32629) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.