اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اذکار کے لیے متعین مسنون عدد سے زیادہ مرتبہ ذکر کرنے کا کیا حکم ہے؟

سوال

آپ نے سوال نمبر: (148699 ) کے جواب میں کہا ہے کہ اذکار کے لیے مذکور مسنون عدد میں اضافہ جائز نہیں ہے، لیکن دوسری طرف حدیث نبوی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص صبح اور شام کے وقت سبحان اللہ وبحمدہ 100 بار کہے تو قیامت کے دن کوئی بھی شخص اس سے افضل عمل نہیں لا سکے گا، البتہ جو شخص اتنی ہی بار یہ ذکر کہے یا اس سے زیادہ بار کہے تو اس کا عمل افضل ہو سکتا ہے۔) تو ان دونوں باتوں میں تطبیق کیسے ممکن ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی کے ذکر کی دو قسمیں ہیں: مطلق ذکر اور مقید ذکر، اور ان دونوں قسموں کا ذکر اللہ تعالی کے اس فرمان میں موجود ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْراً كَثِيراً * وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلاً ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ تعالی کا ڈھیروں ذکر کرو، اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرو۔ [الاحزاب: 41- 42]

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَاذْكُرْ رَبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ
 ترجمہ: اور اپنے رب کا ذکر کثرت سے کر، اور شام و صبح تسبیح بیان کر۔[آل عمران: 41]

تو مطلق ذکر کا مطلب یہ ہے کہ: ایسا ذکر جس کے لیے وقت، جگہ یا حالت کی کوئی قید نہ ہو، بلکہ انسان کسی بھی حالت میں ہو ہر حال میں ذکر کرتا رہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود کیا کرتے تھے، چنانچہ صحیح مسلم: (373) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ کہتی ہیں: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر حالت میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔)

اس قسم کے ذکر کو کثرت سے کرنے کی شرعی طور پر ترغیب دلائی گئی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا 
 ترجمہ: اور اللہ تعالی کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اور خواتین ان کے لیے اللہ تعالی نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہوا ہے۔[الاحزاب: 35]

اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
 ترجمہ: اور اللہ تعالی کا کثرت سے ذکر کرو، تا کہ تم فلاح پاؤ۔ [الانفال: 45]

صحیح مسلم: (2676) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ کے راستے میں چلتے جا رہے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر ایک پہاڑ کے پاس سے ہوا جسے جمدان کہا جاتا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (چلتے رہو، یہ جمدان پہاڑ ہے، اور مُفرِّدون بازی لے گئے)، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! مُفرِّدون کون ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے مرد اور خواتین۔)

جبکہ مقید ذکر : وہ ذکر ہے جسے کسی وقت، جگہ یا کیفیت، یا مخصوص الفاظ یا الفاظ کی مخصوص تعداد کے ساتھ مقید کیا گیا ہو، تو ایسے ذکر کے بارے میں اصول یہ ہے کہ احادیث میں وارد قیود کا خیال رکھا جائے۔

اس کی مثال: فرض نمازوں کے بعد والے اذکار ، سونے کے اذکار، صبح اور شام کے اذکار، اور دیگر مقید اذکار ہیں، تو یہ اذکار انہی الفاظ اور مخصوص تعداد میں کرنے چاہییں جیسے احادیث میں ذکر ہوئے ہیں۔

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس سے یہ مسئلہ کشید کیا گیا ہے کہ اذکار میں مخصوص تعداد کا خیال رکھنا معتبر ہے، وگرنہ یہ کہنا ممکن تھا کہ: اس میں 33 بار لا الہ الا اللہ اور بھی شامل کر لو۔ کچھ علمائے کرام تو اس بارے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ: ایسے اذکار جن کے لیے مخصوص عدد مقرر ہے جیسے کہ فرض نمازوں کے بعد کے اذکار، کہ انہیں مخصوص تعداد میں پڑھنے سے خاص اجر ملتا ہے، تو اگر کوئی شخص مخصوص تعداد سے زیادہ بار اسے پڑھ لے تو اسے وہ خاص اجر نہیں ملے گا، کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ اس مخصوص تعداد کی کوئی حکمت اور خاصیت ہو جو کہ اس عدد سے تجاوز کرنے سے معدوم ہو جاتی ہو ۔۔۔" ختم شد
" فتح الباری"از ابن حجر رحمہ اللہ : (2/330) مکتبہ شاملہ کی ترقیم کے مطابق۔

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: - پہلا ایڈیشن- (24/203)میں ہے:
"مسنون دعاؤں و اذکار کے الفاظ اور تعداد کے بارے میں اصل توقیف ہے، اس لیے مسلمان کو ان کا خیال رکھنا چاہیے، اور ان کی پابندی کرے، لہذا مخصوص تعداد سے زیادہ نہ پڑھے اور الفاظ میں بھی تبدیلی نہ کرے، نہ ان میں کمی بیشی کرے، اور نہ ہی کوئی تحریف کرے۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔ " ختم شد

اس بات کی دلیل کہ ذکر مقید میں صرف منقول ذکر پر اکتفا کیا جائے گا ؛ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول اذکار میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان میں اضافہ کیا ہو، مثال کے طور پر نمازوں کے بعد والے اذکار کے متعلق دیکھیں کہ جس وقت غریب مہاجرین نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے شکایت کی کہ غنی لوگ بھی نماز کے بعد وہی ذکر کرنے لگے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں 33 سے زائد پڑھنے کی اجازت نہیں دی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا: (یہ اللہ کا فضل ہے ، اللہ تعالی جسے چاہے عطا فرمائے۔)، تو اس سے معلوم ہوا کہ ذکر کی تعداد معین عدد میں محصور ہے۔

جبکہ سوال میں مذکور حدیث: (جو شخص صبح اور شام کے وقت سبحان اللہ وبحمدہ 100 بار کہے تو قیامت کے دن کوئی بھی شخص اس سے افضل عمل نہیں لا سکے گا، البتہ جو شخص اتنی ہی بار یہ ذکر کہے یا اس سے زیادہ بار کہے تو اس کا عمل افضل ہو سکتا ہے۔) کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کے متعلق احتمال ہے کہ یہاں اسی ذکر کو مزید کرنا مراد ہو، لہذا اس ذکر کو خاص طور پر استثنا حاصل ہو گا کیونکہ اس کے متعلق اس حدیث میں واضح صراحت موجود ہے، یا یہ بھی احتمال ہے کہ یہاں اس کے علاوہ مزید ذکر کرنا مراد ہو، تو اس اعتبار سے اس کا معنی یہ ہو گا کہ: جس نے یہ ذکر کیا اور پھر اس کے بعد کوئی اور ذکر بھی کیا۔

جیسے کہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص لَا إِلَه إِلَّا اللَّه وَحْده لَا شَرِيك لَهُ ، لَهُ الْمُلْك وَلَهُ الْحَمْد وَهُوَ عَلَى كُلّ شَيْء قَدِير 100 مرتبہ کہے تو کوئی بھی اس سے افضل عمل نہیں لا سکتا، ماسوائے اس شخص کے جو 100 سے بھی زیادہ بار یہ ذکر پڑھے۔) اس میں دلیل ہے کہ اگر ذکر کرنے والا ایک دن میں 100 سے زائد بار پڑھے تو اسے حدیث میں مذکور 100 بار پڑھنے کے اجر کے ساتھ مزید اضافے پر اضافی اجر بھی ملے گا۔ اس ذکر کا تعلق محدود تعداد میں کیے جانے والے اذکار سے نہیں ہے کہ جن کی تعداد اور الفاظ میں اضافے سے منع کیا گیا ہے کہ اضافہ کرنے کی وجہ سے کوئی فضیلت حاصل نہ ہو گی یا اضافہ بقیہ کو بھی باطل کر دے گا، مثلاً: اعضائے وضو دھوتے ہوئے کسی عضو کو تین سے زائد بار دھونا، یا نماز کی رکعات میں اضافہ کرنا۔

نیز یہاں یہ بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ: حدیث میں مذکور ذکر کا اضافہ مراد نہ ہو بلکہ اس سے ہٹ کر دیگر نیک اعمال کا اضافہ مراد ہو۔

اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بھی قسم کا مطلق اضافہ مراد ہو، چاہے یہ اضافہ اسی ذکر سے ہو یا کسی اور نیکی کا اضافہ ہو، یا دونوں قسم کا اضافہ مراد ہو۔ یہ آخری احتمال زیادہ اقرب الی الصواب لگتا ہے۔ واللہ اعلم" ختم شد
" شرح مسلم " از نووی: (17/ 17)، مکتبہ شاملہ کی ترقیم کے مطابق۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ:
ذکر کی دو قسمیں ہیں: مطلق اور مقید۔ مطلق ذکر کے لیے کوئی مخصوص تعداد نہیں ہے، بلکہ انسان اللہ تعالی کا حسب استطاعت ذکر کرے، جب کہ مقید میں اصل یہ ہے کہ ذکر کے الفاظ اور تعداد میں اسی پر اکتفا کیا جائے جو وارد ہوا ہے، البتہ جس کے اضافے کی دلیل موجود ہو تو اس میں اضافہ کیا جانا ممکن ہے، جیسے کہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ اور لَا إِلَه إِلَّا اللَّه وَحْده لَا شَرِيك لَهُ ، لَهُ الْمُلْك وَلَهُ الْحَمْد وَهُوَ عَلَى كُلّ شَيْء قَدِير ، ان دو اذکار کو کرتے ہوئے اگر کوئی شخص 100 سے زائد پڑھ لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب