اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مؤذن کی صفات

سوال

نماز کے لیے اذان کی ذمہ داری کسے دی جائے؟ یعنی نماز کے لیے کس شخص کو مؤذن بنانا چاہیے؟ کیا مؤذن کے لیے کوئی مخصوص صفات بھی ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اذان کی ذمہ داری کے لیے کوئی مخصوص فرد خاص نہیں ہوتا ، لہذا اگر کوئی ایک شخص نماز کے لیے اذان دے تو مقامی تمام لوگوں پر سے اذان کا فریضہ ادا ہو جائے گا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اذان تم میں سے کوئی بھی دے دے، اور امامت تم سے بڑا کروائے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (628) اور مسلم : (674) نے روایت کیا ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (10078 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:
اہل علم رحمہم اللہ نے مؤذن مقرر کرنے کے لیے کچھ شرائط اور صفات ذکر کی ہیں ان صفات کا خیال رکھنا مستحب ہے۔

چنانچہ ایسی شرائط جن کے بغیر اذان صحیح نہیں ہو گی وہ یہ ہیں کہ: اذان دینے والا شخص مسلمان، عاقل اور مرد ہو۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/249) میں کہتے ہیں:
"مسلمان، عاقل اور مرد کی دی ہوئی اذان ہی صحیح ہو گی، چنانچہ کافر اور پاگل کی اذان صحیح نہ ہو گی؛ کیونکہ یہ دونوں ہی عبادت کے اہل نہیں ہیں، جبکہ عورت کی اذان شمار نہیں ہو گی ؛ کیونکہ عورت ان میں سے نہیں ہے جو شرعی طور پر اذان دے سکے۔۔۔۔، اور ہمیں اس مسئلے میں کسی کے اختلافی موقف کا علم نہیں ہے۔" ختم شد

جبکہ مستحب چیزیں یہ ہے کہ: مؤذن کی آواز اچھی ہو، امانتدار یعنی ذمہ داری نبھانے کے قابل ہو، عادل ہو، نمازوں کے اوقات کا اسے علم ہو، اور بالغ ہو۔

جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی"(1/249) میں کہتے ہیں:
"مؤذن کے لیے عادل، ذمہ دار، اور بالغ ہونا مستحب شرط ہے؛ کیونکہ اس کے ذمہ بہت اہم ذمہ داری ہو گی، نمازوں اور روزے کے لیے اسی پر اعتماد کیا جائے گا، اس لیے اگر مؤذن امانتدار اور ذمہ دار نہ تو عین ممکن ہے کہ لوگوں کی نمازوں اور روزوں کو خراب کر دے، اسی طرح یہ بھی ہے کہ چونکہ مؤذن بلند جگہ پر کھڑے ہو کر اذان دیتا ہے تو ممکن ہے کہ غیر امانتدار شخص پردے والی چیزوں پر نظر ڈال لے۔" ختم شد

اسی طرح " الموسوعة الفقهية " (2/ 368) میں ہے کہ:
"مؤذن کے لیے جن صفات سے متصف ہونا مستحب ہے ان میں یہ بھی شامل ہے کہ: مؤذن عادل ہو؛ کیونکہ نمازوں کے اوقات کا ذمہ دار ہو گا، اور اس کی نظر دوسروں کے گھروں میں بھی پڑ سکتی ہے، تاہم فاسق کی اذان کراہت کے باوجود صحیح ہے۔۔۔، مؤذن کے لیے خوش الحان ہونا بھی مستحب صفت ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا کہ: (تم بلال کے ہمراہ کھڑے ہو جاؤ، اور جو کچھ تم نے خواب میں دیکھا ہے وہ بلال کو بتلاؤ؛ وہ اذان کہے؛ کیونکہ بلال کی آواز تم سے زیادہ اچھی ہے۔) اور بلال کی آواز بلند بھی تھی۔۔۔، یہ بھی مستحب ہے کہ مؤذن کو نمازوں کے اوقات کا علم ہو، تا کہ مؤذن نماز کا وقت ہوتے ہی اذان دینے کا اہتمام کرے، اسی لیے بینا مؤذن نابینا مؤذن سے بہتر ہے؛ کیونکہ نابینا مؤذن کو نماز کے وقت کا آغاز ہونے کا علم نہیں ہو سکے گا۔" مختصراً ختم شد

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اگر مسجد میں باقاعدہ طور پر مؤذن ہے تو کوئی بھی مؤذن سے اذان دینے کے لیے زبردستی نہ کرے کہ خود اذان دینے کے لیے کھڑا ہو جائے، ہاں اگر مؤذن اجازت دے تو اذان دے سکتا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات