جمعرات 18 جمادی ثانیہ 1446 - 19 دسمبر 2024
اردو

میت کے فوت ہونے پر وراثت فوری وارثوں تک منتقل ہو جاتی ہے، وراثت کی تقسیم کو معطل رکھنا کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔

196925

تاریخ اشاعت : 23-01-2024

مشاہدات : 1734

سوال

میرے سسر تقریباً 27 سال پہلے فوت ہو چکے ہیں، ساس صاحبہ نے اپنی بچیوں کی شادی ہونے تک وراثت تقسیم نہ کرنے کا کہا اور ایسا ہی ہوا، بچوں نے اب تقسیم وراثت کا مطالبہ کیا تو اب بھی ساس نے وراثت تقسیم کرنے سے انکار کر دیا، سارے ترکے پر ساس اور ان کے ایک بیٹے کا قبضہ ہے وہی اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، تقریباً ایک ماہ پہلے میرا خاوند بھی فوت ہو گیا ہے، انہوں نے ترکے میں قسطوں پر خریدا ہوا مکان چھوڑا ہے جس کی قسطیں ابھی ہم نے ادا نہیں کیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اس رہائشی مکان پر میری ساس کا حق ہے؟ واضح رہے کہ میری ساس نے ابھی تک میرے خاوند کی وراثت نہیں دی، کئی سالوں سے وہی اس کی کمائی کھا رہے ہیں، انہوں نے کبھی میری اور میرے 5 بچوں کی ضرورت کے بارے میں پوچھا تک نہیں ہے، میرے سب بچے مختلف تعلیمی مراحل میں ابھی پڑھ رہے ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

پہلے سوال نمبر: (97842) کے جواب میں گزر چکا ہے کہ: جب مورث یعنی میت فوت ہو جائے تو وراثت فوری طور پر ورثا میں منتقل ہو جاتی ہے؛ چنانچہ والدہ کے لیے بیٹے کی وراثت میں سے حصہ ہو گا، اور بیٹے کے لیے والد کی وراثت میں سے حصہ ہو گا، بیٹا اس حصے کا اس وقت سے حقدار ہے جب سے والد کی وفات ہوئی ہے، والدہ کے لیے بالکل جائز نہیں ہے کہ جو حق اللہ تعالی نے اس کے بیٹے کو دیا ہے اسے روک سکے، اور اس کے لیے حجت یہ پیش کرے کہ بیٹیوں کی شادی کرنی ہے، یا اسی طرح کوئی بھی عذر پیش کرے کہ جس سے حقداروں کے حق کو ہڑپ کیا جا سکے۔

پھر والدین پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو عطیہ یا تحفہ دیتے ہوئے عدل سے کام لیں، کسی کو خصوصی طور پر کوئی عطیہ وغیرہ نہ دیں الا کہ کوئی شرعی گنجائش نکلے۔

اس حوالے سے تفصیلات کے لیے آپ سوال نمبر: (36872 )کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

بیٹے کے ترکے میں سے والدہ کا حصہ: اگر بیٹے کا کل ترکہ صرف رہائشی مکان ہے، تو پھر اس میں سے والدہ کا حصہ بیٹے کی وفات کے دن تک مکان کی حیثیت میں سے ہو گا، بقیہ اقساط کی ادائیگی کے بعد نہیں؛ مثلاً: اگر مکمل مکان کی قیمت ایک لاکھ ہے، اور باقی ماندہ اقساط 50 ہزار ہیں، تو پھر وراثت میں صرف 50 ہزار ترکے کے شمار ہوں گے۔

مزید اس میں یہ ہے کہ آپ ساس کا حصہ اس کے بیٹے کے ترکے میں سے روک لیں، چنانچہ اگر ماں کو بیٹے کے ترکے سے ملنے والا حصہ اس حصے سے کم ہے جو بیٹے کو باپ کے ترکے میں سے ملنے والا ہے تو پھر آپ نے ماں والا سارا حصہ روک لیا ہے، اور بیٹے کے وارثوں کا بقیہ حصہ ماں کے ابھی ذمے ہے۔

اور اگر بیٹے کو باپ سے اور ماں کو بیٹے سے ملنے والے حصص برابر بنتے ہیں تو پھر آپ اپنا سارا حق لے چکے ہو۔

اور اگر ماں کو بیٹے سے ملنے والا حصہ ، بیٹے کے حصے سے زیادہ ہے جو اس ماں نے روکا ہوا ہے تو پھر آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ بقیہ حصہ ماں تک پہنچائیں، چنانچہ آپ اپنا حصہ رکھ کر باقی ماں کے حوالے کر دیں گے۔

بہ ہر حال اس مسئلے میں نرمی سے کام لیں، اور اس مسئلے کے حل کے لیے دیندار، سمجھدار اور پنچائتی شخص کو شامل کریں تا کہ تمام حقداروں کو ان کا حق ملے اور ظلم و زیادتی کے اثرات سے نکل سکیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب