اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

تصاوير اور بچوں كے كھلونے سنبھال كر ركھنے كا حكم

20325

تاریخ اشاعت : 14-04-2008

مشاہدات : 10129

سوال

ہميں معلوم ہے كہ حديث ميں بيان ہوا ہے: جس گھر ميں انسانوں يا حيوانات كى تصاوير لگائى گئى ہوں وہاں فرشتے داخل نہيں ہوتے، ميرا سوال يہ ہے كہ: اخبارات اور ميگزين ميں آنى والى خاندان اور قريبى رشتہ داروں كى تصاوير سنبھال كر ركھنے كا قاعدہ اور ضابطہ كيا ہے، اور اسى طرح بچوں كے كھلونے مثلا گڑيا اور جانور وغيرہ ركھنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

تصوير دو قسم كى ہوتى ہے:

پہلى قسم:

ہاتھ سے بنى ہوئى تصوير.

دوسرى قسم:

آلے كے ساتھ بنائى گئى تصوير.

ہاتھ كے ساتھ تصوير بنانى حرام اور كبريہ گناہ ميں شامل ہوتى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے والے پر لعنت كى ہے، اور اس ميں كوئى فرق نہيں كہ تصوير كا سايہ ہو يا بغير سائے كے ہى صرف نقش اور خاكہ ہى ہو، عمومى حديث كى بنا پر علماء كا راجح قول يہى ہے.

ليكن آلے مثلا كيمرہ كے ساتھ تصوير بنانے ميں متاخر علماء كرام كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے، كچھ علماء كرام نے اس سے منع كيا ہے، اور بعض علماء نے اس كى اجازت دى ہے، اور احتياط اسى ميں ہے كہ كيمرہ سے بھى تصوير نہ بنائى جائے، كيونكہ يہ مشابہات ميں شامل ہے، اور جو كوئى مشابہات سے بچتا ہے اس نے اپنا دين اور اپنى عزت دونوں كو محفوظ كر ليا.

ليكن اگر اسے كسى خاص ضرورت مثلا شناختى كارڈ يا پاسپورٹ وغيرہ كے ليے تصوير بنانى پڑے تو اس ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ ضرورت شبہ كو ختم دےگى.

دوم:

تصاوير كو سنبھال كر ركھنے كى دو قسميں ہيں:

پہلى قسم:

تصوير مجسمہ يعنى اس تصوير كا جسم ہو يہ تصوير ركھنى حرام ہے، ابن عربى نے اس پر اجماع نقل كيا ہے.

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 388 )، ان كا كہنا ہے: يہ اجماع بچيوں كى گڈيوں كے علاوہ ہے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس اپنى گڈيوں اور پٹولوں ( بچيوں كے كھلونے ) سے كھيلا كرتى تھى، اور ميرى سہيلياں بھى تھيں جو ميرے ساتھ كھيلا كرتى تھيں، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم گھر ميں داخل ہوتے وہ آپ سے شرما كر بھاگ جاتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں ميرے پاس بھيج ديتے تو وہ ميرے ساتھ كھيلا كرتى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5779 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2440 ).

دوسرى قسم:

تصوير غير مجسمہ ہو، يعنى كسى چيز پر بنائى گئى ہو، اس كى كئى ايك قسميں ہيں:

1 - اسے تعظيم اور قدر كى نگاہ سے لٹكايا گيا ہو، جس طرح كہ بادشاہوں اور صدر اور وزير اعظم اور وزراء اور علماء كى تصاوير لٹكائى جاتى ہے، يہ حرام ہے، كيونكہ ايسا كرنے ميں مخلوق ميں غلو ہے.

2 - تصوير يادگار كے طور پر لٹكائى گئى ہو جس طرح دوست و احباب اپنے دوستوں كى تصاوير لگاتے ہيں، تو يہ بھى حرام ہے، اس كى دليل صحيح بخارى كى درج ذيل حديث ہے:

ابو طلحہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جس گھر ميں تصوير اور كتا ہو وہاں فرشتے داخل نہيں ہوتے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2104 ).

3 - خوبصورتى اور زينت كے ليے لگائى گئى ہو، تو يہ بھى حرام ہے، اس كى دليل بخارى اور مسلم كى درج ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر سے واپس تشريف لائے تو ميں نے ديوار ميں ايك طاق جس ميں ميرے كھلونے ركھے تھے پر كپڑے كا پردہ لٹكا ركھا تھا جس ميں تصاوير تھيں، تو جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ديكھا تو اسے پھاڑ ديا اور فرمايا:

" روز قيامت سب سے زيادہ شديد عذاب ان لوگوں كو ہو گا جو اللہ كى پيدا كردہ مخلوق بنانے ميں مقابلہ كرتے ہيں "

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے اس كا ايك يا دو تكيے بنا ليے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5610 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2107 ).

4 - ان تصاوير كى اہانت يعنى توہين ہوتى ہو، مثلا وہ تصاوير جو چٹائى اور قالين يا تكيہ اور سرہانے وغيرہ ميں ہوں، امام نووى رحمہ اللہ نے جمہور صحابہ كرام اور تابعين علماء كرام سے اس كا جواز نقل كيا ہے.

5 - يہ تصاوير ان ميں سے ہوں جو عام مصيبت بن چكى ہے، اور جس سے اجتناب كرنا بہت ہى مشكل ہے، مثلا پيسوں اور كرنسى وغيرہ پر بنى ہوئى تصاوير، جس ميں آج امت اسلاميۃ مبتلا ہے، مجھے تو يہى لگتا ہے كہ جس كے ہاتھ لگيں بغير قصد كے اس پر كوئى حرج نہيں.

سوم:

بچوں كا گڈيوں وغيرہ سے كھيلنا:

حرام اور مكروہ سے بچوں كے كھلونے مستثنى ہيں، ليكن وہ كونسے كھلونے مستثنى ہيں ؟

كيونكہ پہلے جو كھلونے بنائے جاتے تھے ان ميں نہ تو آنكھيں ہوتى تھيں، اور نہ ہى ہونٹ اور ناك وغيرہ، جيسا كہ آج كل كے كھلونوں ميں ديكھا جا رہا ہے، اس ليے ميرى رائے تو يہى ہے كہ ان تصاوير سے بھى اجتناب كيا جائے، اور جس قسم كے كھلونے پہلے استعمال كيے جاتے تھے، انہيں پر ہى اقتصار كيا جائے.

ديكھيں: فتاوى العقيدۃ شيخ ابن عثيمين ( 661 - 679 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب